صدر مملکت عارف علوی کے سیکرٹری وقار احمد نے صدر کو خط لکھ دیا ہے۔خط میں وقار احمدکا کہنا ہےکہ صدر مملکت نے میری خدمات واپس کردیں لیکن میں حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں، ایسا تاثر دیا گیا کہ سیکرٹری مذکورہ بلوں سے متعلق کسی بے ضابطگی کا ذمہ دار ہے۔ وقار احمدکے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2 اگست کو ایوان صدر میں وصول ہوا، صدر مملکت کو یہ بل تین اگست کو بھیج دیا گیا، حقائق واضح ہیں نہ میں نے بلز کے معاملے میں تاخیر کی اور نہ بے قاعدگی اور نہ صرف نظر، حقیقت یہ ہےکہ فائلز ابھی بھی صدارتی چیمبر میں موجود ہیں۔
ایوانِ صدر نے صدر مملکت کے سیکرٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کردیں۔ایوان صدرنے وزیر ِ اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے نام خط لکھ کر سیکرٹری کی خدمات واپس کیں،خط میں کہاگیا ہے کہ وقار احمدکی بطور صدر مملکت کے سیکرٹری کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں ، ان کی خدمات کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کی جاتی ہیں،خط میں مزید کہاگیا ہے کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی 22 گریڈ کی افسر ،حمیرا احمد کو بطورصدر مملکت کی سیکرٹری تعینات کیا جائے ۔یاد رہے کہ گزشتہ روزصدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی تردید اور کہا کہ خدا گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں
انہوں نے لکھا کہ میں نے اپنے عملے سے کہا تھا وہ دستخط کے بغیر بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس بھیج دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ڈاکٹر عارف علوی نے لکھا میں نے عملے سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ (دستخط کے بغیر) واپس بھجوائے جاچکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ واپس بھجوائے جاچکے ہیں، تاہم مجھے آج پتا چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔انہوں نے مزید لکھا کہ اللہ سب جانتا ہے، وہ ان شا اللہ معاف کر دے گا لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس قانون سے متاثر ہوں گے۔
علاوہ ازیں آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کیخلاف عدالت سے رجوع کر لیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد روکنے کیلئے درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ درخواست محمد مقسط سلیم ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی جس میں وفاقی حکومت،وزارت داخلہ اور قانون کو فریق بنایا گیا۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ صدر مملکت کا بیان سامنے آیا کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ پر دستخط نہیں کئے۔ صدر کے انکار کے بعد ایکٹ کی کوئی قانونی حثیت نہیں رہی،ایکٹ درست طریقہ کار سے پاس نہیں ہوا۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو غیر قانونی قرار دے کر عملدرآمد فوری روکنے کا حکم دے،جبکہ عدالت حتمی فیصلے تک ایکٹ کو معطل قرار دے۔یاد رہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ، آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے قانون بننے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے، گزٹ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا کہ صدرکی جانب سے بل کی توثیق ہوگئی ہے، گزٹ نوٹیفکیشن پر 18 اگست کی تاریخ درج ہے۔ جبکہ صدر مملکت عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کی تردید کی تھی۔
صدر علوی کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ اللہ گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے۔صدر کے مطابق میں ان بلز سے اتفاق نہیں کرتا، میں نے اپنے عملے کو کہا کہ بل کو بغیر دستخط کے واپس بھیجیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عملے سے کافی بار تصدیق کی کہ بلز بغیر دستخط کے واپس بھیج دیے گئے ہیں۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے صدرِمملکت کی ٹویٹ کی روشنی میں عدالتِ عظمی سے فوری رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تحریک انصاف نے ایک بیان میں کہا کہ آئین و قانون، شہریوں کے بنیادی حقوق اور جمہوریتِ و پارلیمان کی بقا و سلامتی کیلئے خوف و خدشات سے اوپر اٹھ کر موقف اختیار کرنے پر صدرِمملکت سے اظہارِتشکر کرتے ہیں
آرمی ایکٹ :سارے معاملے میں ایوان صدر کا عملہ بے قصور ہے، پارلیمانی ذرائع
، صدر کے بلز کی منظوری یا نہ منظوری کے لیے اصل دستخط ضروری ہیں، دونوں بلز کی منظوری کے تمام مراحل مکمل کر کے صدر کو بھجوائے گئے تھے، ایسے ہی صدر کو بھی دس دن میں ان بلز پر دستخط کرنا تھے یا اعتراض کرنا تھا، قومی اسمبلی و سینیٹ سیکرٹریٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہمیں صدر کا دونوں بلز پر کسی قسم کا کوئی تحریری اعتراض موصول نہیں ہوا۔
دونوں بلز صدر کو چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی نے بھجوائے تھے، جس روٹ سے بل کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ سے سمری ایوان صدر جاتی، اسی روٹ سے واپس آتی، اس سارے معاملے میں صدر کا عملہ بے قصور ہے لیگل برانچ کو ہر چیز کا علم ہوتا ہے، بل مشترکہ اجلاس سے پاس ہو یا سینیٹ اور قومی اسمبلی سے الگ الگ، صدر کو دس دن میں ہی انھیں منظور کرنا یا اعتراض کے ساتھ واپس بھجوانا ہوتا ہے۔
Leave feedback about this