تحریر: ڈاکٹر فوزیہ تبسم

ٹوٹ بٹوٹ کا خیال آتے ہی میں اپنے دادا ابو کی انگلی پکڑ کر پگڈنڈی پر چلنے لگتی ہوں اور یوں چلتے چلتے میں ایک عجیب و غریب دنیا میں پہنچ جاتی ہوں جہاں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے جہاں انسان، جانور، پرندے سب آپس میں دوست ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں چوہے بین بجاتے ہیں ، رانی گانا گاتی ہے اور طوطا چونچ ہلاتا ہے۔ نہرمیں آگ لگتی ہے تو ناگ پھوں پھوں کرتا نکل آتا ہے، جہاں کوے کیں کیں کرتے ہیں اور بکری ”میں میں“ کرتی ہے ، جہاں چوہا چیچوں چیچوں کرتا گھڑی پہ ناچنے لگتا ہے اور جب گھڑی ایک بجاتی ہے تو چوہا خودبخود نیچے آجاتا ہے۔ جہاں مرغا اور مرغی باہم مشورہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹرٹر، چھم چھم اور ٹم ٹم ایسی ”لے“ کو جنم دیتے ہیں کہ جس میں ہمیں سر اور سنگیت کے سارے رنگ اپنا جادو دکھاتے نظر آتے ہیں۔ اس خوبصورت دنیا کی سیر کرتے ہوئے مجھے اپنے دادا کی مسحور کن شخصیت نظر آنے لگتی ہے جس میں وہ مجھ سے شرارتیں کررہے ہیں۔ کبھی خوبصورت ہاتھوں کو ملتے ہوئے بنٹوں کی آواز سناتے دکھائی دیتے ہیں اور میں دونوں ہاتھوں کو کھولنے پر اصرار کرتی ہوں وہ مسکرانے لگتے ہیں میں پھر اصرار کرتی ہوں اور اُن کے ہاتھ پکڑ کر کھولنے لگتی ہوں اس یقین سے کہ ان کے ہاتھوں میں بنٹے ہیں مگر جب وہ ہاتھوں کو کھولتے ہیں تو میں خالی ہاتھوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتی ہوں۔ وہ میری اس مسلسل جستجو پر مسکرانے لگتے ہیں اسی اثناءمیں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ دادا ابو نے میرے ناک کو چھوا اور سوسو کرنے لگے ہاتھ کو جھٹکنے لگے جیسے ہاتھ جل گیا ہو۔
میں کہتی دادا ابو کیا ہوا؟
تمہارا ناک اُف بہت گرم ہے اور میری ہنسی نکل جاتی۔ دادا ابو کو بچوں کو ہنسانے کے طریقے خوب آتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ روتے بچوں کو بڑی آسانی کے ساتھ ہنسا دیتے تھے وہ کبھی بچوں کو گو د لے کر مختلف آوازیں نکالنے لگتے تو کبھی بچوں کو ٹافیوں سے خوش کرتے کسی کو مٹھائی کھلاتے تو کسی کو کھلونے دے کر خوش کرتے۔ بچہ امیر گھرانے کا ہو یا غریب گھرانے کا گندا ہو یا صاف اُن کے لیے بچہ صرف بچہ ہوتا اسی لیے محلے کے بچے بھی اُن کے اپنے بچے ہی ہوتے۔
صوفی صاحب نے جہاں مختلف دلنواز غزلیں، ملّی نغمے، گیت، پہیلیاں اور مختلف موضوعات پر نظمیں لکھیں وہاں اُنہوں نے بچوں کے لیے بچوں ہی کی زبان میں گنتی سکھانے کے لیے کئی نظمیں بھی تخلیق کیں۔
ایک دو تین چار
آﺅ مل کر بیٹھیں یار
پانچ چھ سات
سنو ہماری بات
آٹھ نو دس
بات ہماری بس
والدین کے لیے بچوں کو اچھی اور صحت بخش غذا کھلانے کا مسئلہ ہمیشہ درپیش رہا ہے صوفی صاحب نے بچوں کو کھانے پینے کی طرف راغب کرنے کے لیے بھی نظمیں لکھیں مثلاً
انڈا روٹی دہی پنیر
شکر مکھن کھچڑی کھیر
تم بھی لاﺅ میں بھی لاﺅں
تم بھی کھاﺅ میں بھی کھاﺅں
بچوں کی نظموں کا یہ سلسلہ کیسے شروع ہوا وہ خود سناتے تھے کہ میرے بچے اپنی اماں اور دادی جان سے کہانیاں سنتے مگر ایک دن اُن کی والدہ نے اُنہیں میری طرف بھیجا کہ جاﺅ اور اپنے والد سے کہانی سنو۔ میں نے دو چار دن تو کہانی سنائی مگر پھر میں نے بچوں سے کہا کہ میں آپ کو نظم سنا سکتا ہوں اور یوں انہوں نے اپنی بیٹیوں ثریا اور عذرا کے لیے نظمیں لکھیں
ثریا کی گڑیا نہانے لگی
نہانے لگی ڈوب جانے لگی
بڑی مشکلوں سے بچایا اُسے
کنارے پہ میں کھینچ لایا اُسے
اور اس طرح نظموں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ صوفی صاحب کے بچپن کے دوست عبدالخالق صاحب اپنے بچوں کے ساتھ اکثر صوفی صاحب کے گھر آتے اور اُن کے ہاں ہی قیام بھی کرتے اُن کا ایک بیٹا اکثر اُلٹی پلٹی حرکتیں کرتا ان حرکتوں کی وجہ سے صوفی صاحب بہت محظوظ ہوتے ایک روز اُنہوں نے اُسے فی البدیہہ کہا ”ٹوٹ بٹوٹ“ اور پھر ٹوٹ بٹوٹ بچوں کے عصری ادب کا ایک لازوال کردار بن کر اُبھرا اور مقبولیت کے افق پر ایک نئے سورج کی طرح چمکنے لگا یہ 1945 کا زمانہ تھا جب برصغیر پاک و ہند ایک تھا
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
باپ تھا اُس کا میر سلوٹ
پیتا تھا وہ سوڈا واٹر
کھاتا تھا بادام اخروٹ
صوفی صاحب اپنی بچوں کی کتاب ”ٹوٹ بٹوٹ“ میں رقم طراز ہیں۔
ایک روز میں لاہور کی مال روڈ کے فٹ پاتھ پہ جارہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی ایک ننھا بچہ کہہ رہا تھا امی….امی! دیکھو وہ ٹوٹ بٹوٹ جارہا ہے۔ اُس کی امی نے اُسے چپ کرانے کی کوشش کی لیکن بچہ پھر بڑے وثوق سے چلایا۔ نہیں امی آپ نے دیکھا نہیں وہ ٹوٹ بٹو ©ٹ ہی ہیں میں چلتے چلتے رُک گیا۔ بچے سے ملا اُسے پیار کیا وہ بے حد خوش ہوا۔ یوں معلوم ہوا جیسے اُسے کوئی کھوئی ہوئی چیز مل گئی ہو۔ بچے کی ماں نے مجھ سے معذرت کرنا چاہی اور کہا کہ یہ بچہ ایک عرصے سے آپ کو ملنا چاہتا تھا۔ یہ ایک بچے کی بات نہیں بہت سے بچے آج بھی ٹوٹ بٹوٹ کی تلاش میں ہیں۔
صوفی صاحب نے ٹوٹ بٹوٹ کی نظمیں لکھ کر ٹوٹ بٹوٹ کے کردار کو لازوال بنا دیا ہے۔ ان نظموں میں انہوں نے بچوں کی نفسیات کو مدنظر رکھا ہے۔ وہ بچوں کے جذبات اور احساسات سے بخوبی واقف تھے کہ بچے کن باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ نظمیں نہایت آسان اور عمدہ پیرایہ میں تحریر کی ہیں۔
صوفی صاحب کی نظموں میں بھرپور موسیقیت ہے۔ بچے بہت آسانی سے انہیں ازبر کرلیتے ہیں اور انہیں گاتے پھرتے ہیں۔ صوفی صاحب نے ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلہ کے عنوان سے ایک مسلسل نظم بھی لکھی ہے:
اس گھر کے باہر جنگلہ ہے
یہ ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلہ ہے
منے کا گاﺅں ننگل ہے
گاﺅں کے باہر جنگل ہے
جنگل میں کٹیا ہوتی تھی
کٹیا میں بڑھیا سوتی تھی
بڑھیا کی لڑکی کالی تھی
لڑکی نے بلی پالی تھی
بلی نے چوہا مارا تھا
چوہے نے انڈے چکھے تھے
یہ انڈے گھر میں رکھے تھے
ٹوٹ بٹوٹ جب کھیر پکاتا ہے تو اس میں امی، خالہ، تائی، پھوپھی، بھائی، آپا، ابا، خالو، مینڈک، بلی، چوہے، کوے، طوطے، بلبل غرض کہ ساری خلقت شامل ہوتی ہے۔ انہوں نے اس نظم میں بچوں کو مل بانٹ کر کھانے کا درس دیا ہے۔
صوفی صاحب نے ٹوٹ بٹوٹ نے کرلی شادی میں شادی کے بعد کی کیفیات کو کچھ یوں بیان کیا
نہ وہ شوخی اب نہ وہ شیخی
ختم ہوئی سب ہاہا ہی ہی
ختم ہوئی ساری آزادی
ٹوٹ بٹوٹ نے کرلی شادی
انہوں نے نظم ”اب سب ہیں ٹوٹ بٹوٹ میاں“ میں آنے والے وقت اور حالات کی تصویرکشی کچھ اس طرح سے کی ہے:
اب دال چپاتی کیا شے ہے
سب کیک اور بسکٹ کھاتے ہیں
کیا مطلب دودھ اور لسی سے
سب انگلش سوپ اڑاتے ہیں
سب کوکا کولا پیتے ہیں
کھاتے ہیں کویکر اوٹ میاں
اب سب ہیں ٹوٹ بٹوٹ میاں
صوفی صاحب نے ٹوٹ بٹوٹ کی وساطت سے بچوں کو تفریح کے ساتھ ساتھ تعلیم اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دی ہے۔ یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ اُن کے پاس ریڈیو اور ٹی وی سے کوئی بھی پروڈیوسر آتا وہ عام تحریریں اُسی وقت لکھ کر دے دیتے مگر جب بھی بچوں کے لیے فوری لکھنے کا کہا جاتا تووہ ہمیشہ کہتے کہ مجھے بچوں کی تحریر کے لیے کچھ وقت دیا کرو۔
بچوں کے لیے لکھنا واقعی کوئی آسان کام نہیں مگر صوفی صاحب کی شخصیت میں بچہ مرتے دم تک زندہ رہا۔ صوفی صاحب کے اندر کا بچہ بچوں کے لیے نئی نئی پہیلیاں کہانیاں اور ٹوٹ بٹوٹ کی نظمیں لکھاتا رہا۔
صوفی صاحب کو اپنے مزاج کی رنگارنگی اور تنوع کے باعث ہمہ رُخی شخصیت کا مالک قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس منفرد خصوصیت کی بناءپر آپ اپنے معاصرین میں سب سے ممتاز درجہ رکھتے تھے۔
آخر میں میں یہی کہوں گی کہ ٹوٹ بٹوٹ سے آج کے دور کے بچوں کی محبت کو صوفی تبسم کی بچوں سے محبتوں اور تخلیقی کاوشوں کا صلہ کہہ سکتے ہیں۔
Leave feedback about this