تحریر: ڈاکٹر فوزیہ تبسم

نشانِ امتیاز پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے جو علمی ادبی خدمات پر شخصیات کو دیا جاتا ہے۔ اس سال ”نشان امتیاز“ سول ایوارڈ علمی ادبی خدمات پر صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کو 23مارچ 2023 کو بعدازوفات 45سال بعد ایوانِ صدر اسلام آباد میں دیا گیا۔ میرے لیے یہ اعزاز ہے کہ صوفی تبسم کا ”نشانِ امتیاز“ ایوارڈ میں نے صدرِپاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے وصول کیا۔
یاد رہے کہ صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کی خدمات کا احاطہ کرنا چنداں آسان نہیں لیکن چیدہ چیدہ اُن کی ملکی خدمات اور حالاتِ زندگی یہ ہیں کہ وہ قادرالکلام شاعر (اُردو، پنجابی، فارسی)، محقق، ماہر تعلیم، معلم، مدیر، مترجم، فلاسفر، مو ¿رخ، نقاد، ادیب اور براڈکاسٹر تھے۔
صوفی تبسم 4 اگست 1899 کو امرتسر(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ جہاں اُن کے بزرگ کشمیر سے آکر آباد ہوئے تھے۔ والد کا نام صوفی غلام رسول، والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ صوفی تھا۔ صوفی تبسم کا نام صوفی غلام مصطفےٰ رکھا گیا۔ اُن کے والد کا پیشہ کاروبار تھا مگر اُنہوں نے درس و تدریس کے شعبے کو اپنایا۔
صوفی تبسم نے ابتدائی تعلیم چرچ مشن سکول سے حاصل کی۔ ایف اے خالصہ کالج امرتسر سے کیا پھر ایف سی کالج لاہور سے بی اے اور اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے فارسی کی سند حاصل کی۔ سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے بی ٹی کا امتحان پاس کیا۔ ایم اے، بی ٹی کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ معلمی کرنے کے بعد انسپکٹر آف سکول ہوگئے۔ بعدازاں سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں السنہ شرقیہ کے پروفیسر ہوئے اور تین چار سال بعد گورنمنٹ کالج چلے آئے یہاں معلمی کے چند سال گزارنے کے بعد ہی صدرشعبہ ¿ فارسی اور صدر شعبہ ¿ اردو رہے اور اپنی مدتِ ملازمت پوری کرکے یہیں سے ریٹائر ہوئے۔ صوفی تبسم 1931سے 1954 تک اس کالج میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ انہوں نے کالج کے لیے بے انتہا خدمات سرانجام دیں۔ بلاشبہ گورنمنٹ کالج کا یہ علم و ادب میں عروج کا زمانہ تھا یہ دور ڈی جی سوندھی کا تھا جو پطرس بخاری سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل رہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل صوفی تبسم نے تعلیم بالغاں کے لیے ایک جریدہ ”دوست“ گورنمنٹ کالج لاہور سے نکالا جو انہی کی ادارت میں بہت کامیاب رہا۔
اُنہوں نے ایک ڈرامیٹک سوسائٹی بنائی جس میں شیکسپیئر کے کئی ڈرامے ترجمہ کیے اور سٹیج بھی کیے جن میں (Mid Summer Night Dream) پنجابی ترجمہ ”ساون رین دا سفنہ“ ، خطرناک لوگ (Such Men are Dangerous) کے نام سے صفدر میر اور رفیع پیر کی ڈائریکشن میں گورنمنٹ کالج میں سٹیج ہوئے۔ یہ ڈرامے بے حد مقبول ہوئے اور ہر سال گورنمنٹ کالج میں سٹیج ہوتے رہے۔ ”دلی کی آخری شمع“ کے نام سے مشاعرہ کیا جس میں نامور کلاسیکل شعراءکو پوٹرے کیا گیا۔ گورنمنٹ کالج میں ادیب فاضل کی شام کی کلاسیں بھی صوفی تبسم نے شروع کیں۔ اپنے طویل دورِمعلمی میں صوفی تبسم اپنے شاگردوں میں بے حد مقبول رہے۔ اُن کے شاگردوں میں ایسے بہت سے نام ہیں جنہوں نے اپنے استاد کی طرح بڑی شہرت حاصل کی۔ قدرت اللہ شہاب، فیض احمد فیض، الطاف گوہر، تجمل حسین، اشفاق احمد، بانوقدسیہ، کشورناہید، جسٹس نعیم حسن شاہ، حنیف رامے، جسٹس جاوید اقبال، ڈاکٹر عبدالسلام، وحیدقریشی اور ان کے علاوہ کئی نامور شاگرد برصغیر کے گوشے گوشے میں موجود ہیں۔
صوفی تبسم نے جس شہر میں آنکھ کھولی وہ امرتسر کہلاتا تھا جس کے میٹھے پانی کی شیرینی صوفی تبسم کی باتوں میں بھی موجود تھی۔ یہ شہر ایسا شہر تھا جہاں کاروبار کے علاوہ بڑے بڑے شہرت یافتہ شاعر، ادیب، علما، فضلا اور مشائخ بستے تھے۔ صوفی تبسم نے جب علم کی ابتدا کی اس زمانے میں علمی اُفق پر بہت سے ستارے جگمگا رہے تھے۔ جن میں صوفی تبسم کے برگزیدہ استاد قاضی حفیظ اللہ، محمد عالم آسی، مولوی احمد دین امرتسری، علامہ محمد حسین عرشی امرتسری، حکیم مفتی غلام رسول اور صوفی تبسم کے خاص استاد گرامی حکیم فیروزالدین طغرائی کے نام قابل ذکر ہیں۔ صوفی تبسم کا تخلص ابتدا میں کچھ عرصہ اصغرصہبانی بھی رہا مگر اُن کے استاد حکیم فیروزالدین طغرائی نے یہ تخلص اس لیے بدلا کے صوفی صاحب سراپا تبسم رہتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے اُن کا تخلص تبسم تجویز کیا۔ صوفی تبسم کے دادا صوفی احمد کا بہت بڑا کتب خانہ تھا اس کتب خانہ میں فارسی اور اُردو کی نادر کتب موجود تھیں اور صوفی صاحب اس نادر علمی سرمایہ سے خوب فیض یاب ہوئے۔ صوفی تبسم نے ابتدا میں جو اشعار کہے وہ فارسی ہی میں تھے۔ صوفی تبسم اپنے دورِمعلمی میں نیوہوسٹل گورنمنٹ کالج میں رہے اور وہاں علمی ادبی مجالس ہوتی رہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جہاں بھی رہے وہاں نیازمندانِ لاہور کی مجالس عروج پر رہیں۔ یہ علمی ادبی حلقہ نیازمندانِ لاہور کے نام سے مشہور ہے جن میں پطرس بخاری، ڈاکٹر تاثیر، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری، پنڈت ہری چند اختر، کرنل مجید ملک، امتیاز علی تاج اور عبدالرحمن چغتائی شامل تھے۔ ان کے علاوہ صوفی تبسم کی گیلری استاد دامن، احسان دانش، فیض احمد فیض، ڈاکٹر حمیدالدین، عابد علی عابد اور کئی نامور شخصیات سے بھری رہتی ۔ صوفی صاحب ریٹائر ہونے کے بعد بھی علمی ادبی خدمات میں مصروف رہے جس میں خانہ ¿ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر رہے اور اس ادارے کے بانی خود صوفی صاحب تھے۔ وہ سول سروسز اکیڈیمی اور فنانس سروسز اکیڈیمی، پنجاب یونیورسٹی لاہور معلم کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ لیل و نہار جریدے کے ایڈیٹر رہے، حرف و سخن کے نام سے اُن کا اداریہ چھپتا رہا، مقتدرہ قومی زبان سے وابستہ ہوگئے۔ اردو میں خوبصورت تراجم کیے۔ مینارپاکستان کمیٹی کے ممبر بھی رہے۔ ٹیکسٹ بک بورڈ کے مشیر، فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن کے اعزازی رکن، ماہنامہ سکھی گھر کے مدیر اعلیٰ رہے۔
صوفی تبسم پاکستان کرکٹ بورڈ کے پہلے چیئرمین رہے۔ صوفی تبسم نے 1976میں علامہ اقبال پر بہترین کتاب تحریر کی انہیں میڈل پیش کیا گیا۔ انہیں اُسی سال اقبال اکادمی کا وائس پریزیڈنٹ مقرر کردیا گیا تادمِ آخر اس عہدے پر فائز رہے۔ وہ ریڈیوپاکستان سے بطور مشیراعلیٰ وابستہ رہے۔ ریڈیوپاکستان نیشنل ہوک اپ پر ”اقبال کا ایک شعر“ کی تشریح ایک عرصہ عوام کو اقبالیات سے روشناس کروانے کے لیے پروگرام پیش کرتے رہے۔
صوفی تبسم نے لاہور آرٹس کونسل کی بنیاد رکھی اور جب صوفی تبسم لاہور آرٹس کونسل کے پہلے چیئرمین بنے تو یہاں بھی ہفتہ وار اقبال لیکچر اور تنقیدی مجالس کا اہتمام کیا۔ گویا اقبالیات کی ترویج و ترقی کے لیے صوفی تبسم نے انتھک کام کیا۔ صوفی تبسم نے 1965کی جنگ میں قومی جنگی ترانے لکھ کر اہم قومی فریضہ سرانجام دیا جو آج بھی زبانِ زدِ عام ہیں۔ صوفی تبسم اپنے کلام سے افواجِ پاکستان کے خون کو گرماتے رہے اور فوجی جوان بہادری سے لڑے اور فتح ان کا مقدر بنی اور دشمن کو شکست فاش ہوئی۔
اے پتر ہٹا تے نئیں وکدے
توں لبھدی پھریں بازار کڑے
میریا ڈھول سپاہیا
تینوں رب دیاں رکھاں
صوفی تبسم نے غالب کے فارسی کلام کا منظوم ترجمہ کیا جو بے حد مقبول ہوا اور اسے گلوکاروں نے گایا۔ امیرخسرو کے فارسی کلام کا بھی منظوم ترجمہ کیا اس کتاب کا نام دوگونہ ہے۔ صوفی تبسم بچوں سے بے حد محبت کرتے تھے اپنی بیٹی ثریا کے لیے بھی انہوں نے یہ نظم لکھی
ثریا کی گڑیا سوئی ہوئی ہے
گھنٹی بجاﺅ اس کو جگاﺅ
توبہ ہے میری میں نہ جگاﺅں
وہ رو پڑے گی مجھ سے لڑے گی
صوفی تبسم نے ایک کردار ٹوٹ بٹوٹ تخلیق کیا جو بے حد مشہور ہوا
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
باپ تھا اس کا میر سلوٹ
پیتا تھا وہ سوڈا واٹر
کھاتا تھا بادام اخروٹ
صوفی صاحب نے بچوں کے لیے کہانیاں، پہیلیاں، ڈرامے بھی لکھے جو ریڈیو اور PTV پر نشر ہوتے رہے اور رسائل کی زینت بھی بنے۔ صوفی تبسم کا کلام مہدی حسن، نسیم بیگم، فریدہ خانم، نورجہاں، غلام علی، پرویز مہدی، اے نیراور بہت سے نامور گلوکاروں نے گایا ہے۔ صوفی تبسم پر بہت سے طالب علم پی ایچ ڈی اور ایم فل کر چکے ہیں۔
صوفی تبسم کو فارسی کی ترویج و ترقی کے لیے خدمات سرانجام دینے پر حکومت ایران نے 1959 میں نشانِ فضیلت عطا کیا۔ حکومت پاکستان نے تمغہ ¿ حسن کارکردگی 1962 میں عطا کیا، ستارہ ¿ امتیاز 1967 میں عطا ہوا اور 23مارچ2023 بعداز وفات صدرِپاکستان نے پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ نشانِ امتیاز سے نوازا ہے۔ صوفی تبسم کے کریڈٹ پر 40 سے زیادہ کتب موجود ہیں۔ اُن کا کلام اور مقام بیسویں صدی کی آٹھ دہائیوں پر محیط ہے۔ اکیسویں صدی میں صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کو ہر لحاظ سے شناخت کیا گیا اور ان کی تکریم کی گئی۔ اس کے لیے حکومت پاکستان کے دل سے شکرگزار ہیں۔
Leave feedback about this