پاکستان کا نظامِ تعلیم
تحریر: عمارہ کنول

بس اڈے پر کھڑی دو انجان عورتیں اپنے اپنے بچوں کا ذکر کر رہی تھیں ایک عورت امیر جبکہ دوسری تھوڑے درمیانے طبقے سے تھی امیر عورت کہہ رہی تھی میرا بیٹا لاہور میں پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے جبکہ دوسری عورت کہتی ہے میرا بیٹا ڈگری کالج میں پڑھتا ہے میں سوچنے لگی کہ دونوں میں کتنا فرق ہو گا۔
کسی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک کی ترقی میں سب سے زیادہ ہاتھ اس ملک کی ترقی پسند عوام اور پڑھے لکھے طبقے کا ہوتا ہے ترقی میں تعلیم یافتہ طبقے کا سب سے زیادہ حصہ ہوتا ہے معیاری تعلیمی ادارے ملک و قوم کے تابناک مستقبل کی علامت ہوتے ہیں اچھی تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا نہ صرف فرض ہے بلکہ حق ہے بنیادی حق ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں دہرا معیار تعلیم رائج ہے یوں اس دہرے معیار نے معاشرے کو واضح دو گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کچھ بچے سرکاری اسکولوں میں نیلے پیلے یونیفارم میں ملبوس انگریزی کی بجائے اردو میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کچھ ٹائی لگا کر پرائیویٹ اداروں میں فرفر انگریزی بولتے ہیں اس نظامِ تعلیم نے نوجوانوں کو باغی کر دیا ہے جرائم کی طرف ان کا رجحان بڑھتا جارہا ہے احساسِ محرومی احساس کمتری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں نفرت حسد اور جلن کی چنگاری دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔
اردو میڈیم اور انگلش میڈیم نے طالب علموں کو واضح طور پر دو گرہوں میں کر دیا ہے اردو میڈیم کے طالب علم جب تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو ان کو کوئی بھی اچھی نوکری نہیں ملتی یہ لوگ ایم اے یا بی اے کی ڈگری لے کر بھی بہتر انگریزی نہیں بول سکتے اور ان میں اعتماد کی کمی بھی ہوتی ہے جبکہ نجی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلباء ہر میدان میں ہر شعبے میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں ملک میں تعلیمی نظام اردو اور انگریزی میڈیم میں بٹا ہوا ہے جہاں سرکاری سکول اردو میڈیم جبکہ نجی سکول انگریزی میڈیم تصور کیے جاتے اگر مدارس کے نظام تعلیم کو بھی شامل کریں تو یہ ایک تیسرا نظامِ تعلیم بن جاتا ہے۔
پاکستان بننے سے پہلے برطانیہ نے اس خطے میں ایک ایسا تعلیمی نظام متعارف کروایا جس میں انگریزی زبان کو کلیدی حیثیت حاصل تھی اسی نظام میں اشرافیہ کے لیے اعلیٰ تعلیمی نظام متعارف کروایا اشرافیہ کےلیے اور نظام جبکہ عام رعایا کے لیے اور نظام بدقسمتی سے پاکستان میں یہی نظام رائج ہوا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف تعلیمی نظام بلکہ پورا معاشرہ ہی تقسیم ہو گیا ہے جنہیں نہ اردو میڈیم نہ انگریزی میڈیم نصیب ہوتا ہے یعنی حکومتی اعدادو شمار کے مطابق لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
اس دہرے تعلیمی نظام سے نوجوان کس سمت میں جارہے ہیں اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں ایک طرف اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل انگریزی میں بات کرتے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور بہترین گھروں میں رہتے ہیں دوسری طرف اردو میڈیم سے پڑھے لکھے نوجوان نوکری کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے نظر آتے ہیں کچھ تو دل برداشتہ ہو کر زندگی کو ہی خیر آباد کہہ دیتے ہیں اسی دہرے نظام تعلیم کے تحت ایک کنفیوژ اور الجھاؤ کا شکار نسل پروان چڑھ رہی ہے۔
ایک طرف وہ نوجوان جنہوں نے مادری زبان میں تعلیم حاصل کر کے اپنا مستقبل تاریک کرلیا دوسری طرف انگریزی میڈیم میں پڑھنے والے نوجوان کو مادری زبان سے دور کر دیا ہے بحثیت قوم ہم اپنی نوجوان نسل کے مجرم ہیں جنہوں نے اشرافیہ اور عام آدمی کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کردی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔
پاکستان میں ایک نظام برطانیہ کا نظام تعلیم یعنی O & A لیول دوسرا نظام پرائیویٹ اسکولز سسٹم تیسرا نظام گورنمنٹ اسکولز سسٹم اور چھوتا نظام مدرسہ تعلیم سسٹم رائج ہے۔ گورنمنٹ اسکولز میں فیڈرل بورڈ الگ اور پانچوں صوبوں کا الگ الگ نظام تعلیم و نصاب نظر آتا ہے۔ امتحان میں کامیابی کے لیے %33 نمبر کی روایت اب تک برقرار ہے دنیا ہر میدان فتح کر رہی ہے ہم اب بھی بچوں کو %33 پر پاس کر رہے ہیں اب یہ معاشرہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ اصلاح کی اچھی سے اچھی کوشش کو وہ شکست دے دیتا ہے اور اس طرح اصلاح کی ہر کوشش نقصان دہ نظر آتی ہے۔
ہمارے ہاں طویل المعیاد منصوبہ بندی کی صلاحیتوں کا فقدان ہے ان منصوبوں میں ہمیں بہت جلد نقص نظر آنے لگ جاتے ہیں اور ہم ان میں نقص نکال کر ترک کردیتےہیں
بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس ملک کی اشرافیہ, حکومتیں, سیاسی جماعتیں وغیرہ قوم کو اچھی تعلیم سے آراستہ کرنے میں سنجیدہ نہیں اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو تعلیم میں قوم کی سرمایہ کاری میں بخل سے کام نہ لیتے۔
Leave feedback about this