تحریر: عمارہ کنول

جن کے آنے سے مکہ میں اسلام کی ترقی ہوئی ,جو گلیوں میں راتوں کو رعایا کی خبر گیری کے لیے پہرا دیا کرتے تھے ,جن کے عقد میں حضرت علیؓ کی بیٹی تھی, جن کے ارادوں نے قرآن کا روپ دھارا, جن کی منشا خدا کی منشا ٹھہری, شوکت اسلام, ترقی اسلام, خوشحالی اسلام, عدل وانصاف کا مظہر جرات وبہادری کا باب جن سے منسوب تھا وہ خلیفہ عدل و حریت ٹھہرے جن کے بارے میں انگریزوں کو خطرہ تھا کہ ایک اور پیدا ہو جاتا تو ہر طرف اسلام ہی اسلام ہوتا, جس نے فقر میں بادشاہی کی, جس کو سر منبر دوران خطاب ٹوک دیا جاتا ہے, وہ جس نے دس سال خلافت کی, وہ جس کی دور حکمرانی میں روم و فارس اسلام کی علمبرداری میں آگئے, وہ جو پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے, وہ جو غلام کو گھوڑے پر سوار کر کے خود پیدل چلتے تھے وہ ذات ہے امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر فاروقؓ۔
حضرت عمر فاروقؓ 584 عیسوی میں مکہ میں پیدا ہوئے آپؓ نے نبوت کے چھٹے سال 33 برس کی عمر میں اسلام قبول کیا آپ کے قبول اسلام کے لیے نبی کریم ﷺ نے اس طرح دعا فرمائی “اے اللّٰہ عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما” عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا ” جب سے عمر ؓ اسلام لائے یہ دین روز بروز ترقی کرتا چلا گیا”
حضرت عمر فاروقؓ نے اسلام قبول کیا تب دارارقم میں موجود مسلمانوں نے اس زور سے تکبیر بلند کی کہ تمام اہلِ مکہ نے سنا آپؓ نے دریافت کیا یا رسول اللہﷺ کیا ہم حق پر نہیں آپﷺ نے فرمایا بےشک ہم حق پر ہیں فرمایا پھر ہم پوشیدہ کیوں رہیں چنانچہ پھر مسلمان دو صفیں بنا کر نکلے ایک صف میں حضرت حمزہؓ تھے اور ایک میں عمر فاروقؓ جب مسلمان اس طرح مسجدِ حرام میں داخل ہوئے تو کفار کو سخت ملال ہوا اس رن رسول اللّٰہﷺ نے حضرت عمرؓ کو فاروق کا لقب عطا فرمایا کیونکہ اسلام ظاہر ہوگیا اور حق و باطل میں فرق پیدا ہو گیا ۔
حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ حضرت عمر ؓ کے علاوہ کوئی شخص بھی ایسا نہیں تھا جس نے اعلانیہ ہجرت کی ہو آپ ہجرت کے ارادے سے نکلے آپ نے تلوار حمائل کی کمان شانے پر لٹکائی اور ہاتھ میں تیر پکڑ کر خانہ کعبہ کا طواف کیا پھر وہاں موجود کفارِ قریش میں سے ایک ایک فرد سے الگ الگ فرمایا ” تمہاری صورتیں بگڑیں تمہارا ناس ہو جائے! ہے کوئی تم میں جو اپنی ماں کو بیٹے سے محروم, اپنے بیٹے کو یتیم, اور اپنی بیوی کو بیوہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو! وہ آئے جنگل کے اس طرف آکر مجھ سے مقابلہ کرے۔ میں عمر ؓ اس شہر سے ہجرت کررہا ہوں” کفار کو آپؓ کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہوسکی یہاں تک کہ شیطان بھی آپ س خوفزدہ ہوتا ۔
آپؓ اسلام کے دوسرے خلیفہ ہیں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں مفتوحہ علاقے کا رقبہ 22,51030 مربع میل تھا جن میں شام مصر جزیرہ خوزستان عراق عجم آرمینیا آذربائیجان فارس کرمان خراسان بلوچستان اور بیت المقدس سمیت کئی اہم علاقے شامل ہیں
آپ کا دور خلافت 634 سے 644 ہے خلیفہ بننے کے بعد اپنی پہلے خطاب میں آپ نے فرمایا “اے لوگو اگر مجھے حضرت ابو بکر ؓ کی نافرمانی کا ڈر نہیں ہوتا تو میں کبھی تمہارا حاکم اور امیر بننا پسند نہیں کرتا”
ایک مرتبہ سیدنا عمر ؓ بیت المال کے بھاگے ہوئے اونٹ کو صحرا سے پکڑ کر لائے اور گرمی سے بے حال ہوگئے تو صحابی نے کہا امیرالمومنین یہ کام تو غلام کا ہے آپ نے فرمایا مجھ سے بڑا غلام کون ہے۔ مدینہ میں قحط پڑا تو حضرت عمر ؓ کے حکم سے جس جس کے پاس جو جو سامان خورونوش تھا اس کو بیت المال میں جمع کیا گیا تمام لوگوں کے لیے کھانا ایک جگہ پکتا اور اجتماعی دسترخوان پر کھایا جاتا۔
آذربائیجان کے گورنر نے عمدہ حلوے کا مرتبان آپ کو بھیجا تو آپؓ نے اس کو چکھا اور پسند کیا اور پوچھا کہ کیا وہاں سب لوگ یہ حلوہ کھاتے ہیں تو جواب ملا کے نہیں یہ امراء کی خوراک ہے آپؓ نے مرتبان وہیں بند کردیا اور فرمایا جو چیز عام آدمی کی رسائی سے باہر ہو تو مسلمانوں کے امیر کا بھی اس پر کوئی حق نہیں۔
مصر کی فتح کے بعد وہاں کے گورنر عمرو بن عاص نے مصرویوں کو انکے رواج کے مطابق کنواری لڑکی دریا نیل کی بھینٹ چڑھانے کی اجازت نہ دی تو دریائے نیل خشک ہو گیا اس پر گورنر نے آپ کی خدمت میں سب ماجرا لکھ بھیجا آپ نے ایک خط لکھ کر ان سے فرمایا اس خط کو دریا میں ڈال دو خط میں لکھا تھا “اللّٰہ کے بندے امیرالمومنین عمر ؓ کی جانب سے دریائے نیل کے نام! معلوم ہو کہ اگر تو خودبخود جاری ہوتا ہے ہے تو مت جاری ہو اگر تجھے اللّٰہ تبارک وتعالیٰ جاری کرتا ہے تو میں اللّٰہ واحدوقہار سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے جاری کردے” جب یہ خط دریائے نیل میں ڈالا گیا تو دریا ایسا جاری ہوا کہ معمول سے سولہ گز پانی چڑھ گیا اور پھر کبھی خشک نہیں ہوا۔
محکمہ فوج، پولیس، ڈاک، بیت المال، محاصل، جیل، زراعت، آبپاشی اور تعلیم کے محکمہ جات کا قیام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوا۔ اس سے پیشتر یہ محکمے موجود نہ تھے۔ ان محکموں کے قیام سے یکسر نظام خلافت، نظام حکومت میں بدل گیا تمام محکموں کے افسران اور ملازمین کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔
اسلام کے اس عظیم سپوت کی فتوحات سے اہل باطل اتنے گھبرائے کے سازشوں کا جال بچھا دیا اور ستائیس ذی الحجہ کو ایک ایرانی مجوسی ابولولو فیروز نے نمازِ فجر کی ادائیگی کے دوران حضرت عمررضی اللہ عنہ کو خنجر مار کر شدید زخمی کر دیا۔
یکم محرم الحرام 23 ہجری کو امام عدل و حریت ، خلیفہ راشد،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا ثمر، امیر المومنین ، فاتح عرب وعجم، مدینہ منورہ میں تریسٹھ سال کی عمر میں شہادت کے رتبے پرفائز ہوئے، آپ روضہ رسولﷺ میں انحضرتﷺ کے پہلو مبارک میں مدفن ہیں
Leave feedback about this