وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ڈیفالٹ کا خطرہ اب ختم ہو چکا ہے، میثاق معیشت پر پوری قوم متحد ہوجائے تاکہ جو بھی حکومت آئے اسے نہ چھیڑ سکے، دوست ممالک نے آئی ایم ایف سے معاہدے میں بہت مدد کی مگر اب اْن سے کہتا ہوں خدا کرے ہمیں آپ سے قرض کیلیے بات نہ کرنا پڑے،معیشت کی بحالی کیلئے ہم نے پروگرام بنایا ہے، اب اگلی حکومت کو معاشی بحالی کے پروگرام پر کام کرنا ہو گا۔
ان خیالات کا اظہا ر انہوں نے ’اسلام آباد ماڈل اسپیشل اکنامک زون‘ کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔وزیراعظم نے کہا کہ اسلام آباد ماڈل سپیشل اکنامک زون کا سنگ بنیاد رکھنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، افسوس یہ منصوبہ کئی سال پہلے معرض وجود میں آنا چاہیے تھا، پانچ سال کی تاخیر کے بعد آج سے آغاز کیا جا رہا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ یہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں سی پیک کے تحت اسپیشل اکنامک زونز کا اجرا ہونا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک نواز شریف کی کاوش تھی اور سی پیک کے تحت جن منصوبوں کا آغاز کیا گیا ان میں 2015 سے 2018 تک 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی مگر اس کے بعد نہ صرف سی پیک کو جامد کردیا گیا لیکن چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نفی کرنے کی کوشش کی گئی اور تعلقات میں بہت بڑا تعطل پیدا ہوگیا اور یوں سی پیک کے تحت چلنے والے اکنامک زونز تعطل کا شکار ہوگئے۔شہباز شریف نے کہا کہ ہمارے چودہ ماہ فائرفائٹنگ میں گزرے، تباہ کن سیلاب نے پورے ملک میں تباہی مچائی،
وفاق نے سیلاب سے نمٹنے کیلئے 100 ارب تقسیم کیے، یوکرین، روس جنگ کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آیا، لاکھوں ٹن گندم امپورٹ کرنے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑے، تیل امپورٹ کرنے کیلئے 27 ارب ڈالر خرچ ہوئے، آئی ایم ایف ہمارے سر پر سوار تھا۔انہوں نے مزید کہا اللہ کا شکر ہے مشترکہ کاوشوں سے معاہدہ ہوا، وزیر خزانہ، وزیر خارجہ سمیت سب کی کاوشوں سے معاہدہ کیا، بجلی کی بہت زیادہ چوری ہوتی ہے، صنعتی ترقی کیلئے بہت اہم منصوبہ بندی کی ہے، بجلی کا بوجھ غریب آدمی پرمزید نہیں ڈال سکتے، پاکستان کو ے پناہ چیلنجز کا سامنا ہے، آئی ایم ایف کی شرائط پرعملدرآمد کے ہم پابند ہیں، ماضی میں آئی ایم ایف معاہدے پرعمل نہیں کیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ اگر چین سے اعلیٰ معیار کی استعمال شدہ ٹیکنالوجی پاکستان میں لائی جاتی تو پاکستان ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کرتا جس سے نہ ہمارے برآمد سے خاطر خواہ اضافہ ہوتا بلکہ روزگار، پیداوار اور محصولات میں بھی اضافہ ہوتا لیکن بدقسمتی سے اس تمام کوشش کو خیرآباد کہہ دیا گیا اور پوری توانائی گالی گلوچ پر وقف کردی گئی۔انہوں نے کہا کہ معیشت کی بحالی کیلئے ہم نے پروگرام بنایا ہے، اب اگلی حکومت کو معاشی بحالی کے پروگرام پر کام کرنا ہو گا۔
الیکشن کے نتیجے میں جو بھی اگلی حکومت آئے گی اس کو ان حدود پر دن رات کام کرنا ہوگا، بجلی کس طرح سستی دینی ہے یہ کوئی آسان کام نہیں، بجلی چوری ہوتی ہے، لائنوں کا نقصان ہوتا ہے، اے کا بل بی کو بی کا بل اے کو جانا یہ سب محکمہ کی خرابیاں ہیں جس کی وجہ کرپشن ہوتی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ صرف بجلی کا محکمہ نہیں بلکہ چار برسوں میں حکومت کی طرف سے لگائے گئے محکمے تباہی کے کھنڈراٹ کی تصویر پیش کر رہے ہیں اور غریب قوم کے 6 سو ارب روپے وہاں ڈوب جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مشکلات کے باوجود ملک کو آگے لے جانا ہے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط ہیں، ان پر پابند ہیں، ماضی کی حکومت کی طرح ہم یہ فاش غلطی نہیں کریں گے کہ معاہدہ کرکے توڑ دیں، ہمیں اس معاہدے کی پاسداری کرنی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ یہ مشکلات اور چیلنجز ہیں لیکن کوئی مشکل نہیں رہتی، اگر فیصلہ کرلیں کہ پاکستان کو ترقی کے دور میں داخل کرنا ہے اس کے لیے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا اور میثاق معیشت پر پوری قوم متحد ہوجائے تاکہ جو بھی حکومت آئے اس کو نہ چھیڑ سکے۔انہوں نے کہا کہ وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر یہ ارادہ کرلیں کہ ہم کسی مشکل کو نہیں رہنے دیں گے
، دن رات محنت کرکے تمام منزلیں طے کریں گے، میں سمجھتا یوں یہ یہ مرحلہ آگیا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہو چکا ہے اور ڈیفالٹ کا خطرہ ختم ہوچکا ہے اور پاکستان کے ذخائر 14 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جتنی ہماری ایکسپورٹ ہے ڈوب مرنے کا مقام ہے، ، وزیراعظم نے کہا کہ جن دوست ممالک نے مدد کی دن رات ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، لیکن اب قرضوں سے ہمیں نکلنا ہوگا، جن ممالک سے میری بات ہوتی ہے ان کا شکریہ ادا کرکے کہتا ہوں کہ خدا کرے اب ہمیں آپ کو قرض کے لیے درخواست نہ کرنی پڑے لیکن آپ آئیں اور پاکستان میں سرمایہ کریں ۔
شہباز شریف نے مزید کہا ہے کہ ہمیں انڈسٹریل زونز کارو باری حضرات کو لیز پر دینے چاہئیں، اگر حکومت زمینوں کی قیمتیں بڑھائے گی تو کون آ کر سرمایہ کاری کرے گا، زمینیں لیز پر دیں گے تو ملک تیزی سے آگے رواں دواں ہو گا، ہم ہمسایہ ملک کو معاشی میدان میں شکست فاش دیں گے، باتیں نہیں عملی اقدامات کرنا ہوں گے

Leave feedback about this