تحریر: عمارہ کنول

پاکستان ایک الجھی ہوئی پیچیدہ ریاست ہے۔ ملک پاکستان کے تمام بحران ماضی میں کی گئی غلطیوں بلکہ گناہوں کی مرہونِ منت ہیں آج جو ہم کاٹ رہے ہیں وہ اسی تاریخ کا بویا ہوا ہے مذہبی انتہا پسندی کا یہ لگایا ہوا درخت آج اتنا بڑا درخت بن چکا ہے جس کی جڑیں اتنی مضبوط اور اتنی پھیل چکی ہیں کہ اب ان جڑوں کو اکھاڑنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
جرمن فلاسفر ہیگل نے کہا تھا کہ:
We learn from the history that we learned nothing
“ہم نے تاریخ سے یہ سیکھا ہے کہ ہم نے کچھ بھی نہیں سیکھا”
ہیگل نے شاید یہ نقطہ ہمارے لیے ہی بیان کیا تھا افسوس کے بجائے ہم اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے انہیں مسلسل دہرا رہے ہیں۔
برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد وجود میں آنے والی دو کلونیل ریاستوں پاکستان اور ہندوستان میں کوئی چیز بدلی تو وہ محض چمڑی کا رنگ گوری چمڑی والوں کی جگہ گندمی چمڑی والے اقتدار پر براجمان ہو گئے مگر گوری چمڑی والوں کی حکمرانی میں اور گندمی چمڑی والوں کی حکمرانی میں کوئی فرق نہیں تھا طرزِ حکمرانی محض سامراجی ہی رہا دونوں ریاستوں کی مذہبی اشرافیہ نے عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم اور انہی بنیادوں پر ان پر حکمرانی کی۔
پڑوسی ملک بھارت میں مذہبی فسطائیت نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں اسی لیے نریندر مودی اور بی جے پی کی منتخب فسطائی حکومت مذہبی ریاست کی بھیانک شکل تصور کی جاتی ہے پاکستان میں جنرل ضیاءالحق جیسے آمر نے اپنے غیر آئینی مارشل لاء کو طوالت بخشنے کے لیے مذہب کارڈ کا استعمال کیا اور ان کی لگائی اس آگ نے اس ہرے بھرے گلستان کو دوزخ بنا کر رکھ دیا۔ کچھ لوگ پاکستان کو سیکولر کہتے کچھ مذہبی کیا ریاست پاکستان کا اپنا کوئی مذہب ہے؟ لبرل طبقہ پاکستان کو سیکولر قرار دیتا ہے جہاں وہ حوالہ دیتے ہیں قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کا جس میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ آپ آزاد ہیں اپنی اپنی عبادت گاہوں مندروں مسجدوں میں جانے کے لیے آپ کا مذہب کیا ہے ریاست پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں جبکہ دوسری جانب کہا جاتا ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اس میں سب کچھ اسلام کے مطابق ہونا چاہیے۔ کیا ریاست پاکستان میں سب کچھ اسلام کے مطابق ہو رہا ہے؟ کیا تمام تر قوانین اسلام کے مطابق ہیں؟ اگر ریاست پاکستان میں تمام تر قوانین اسلامی ہیں تو چوری بھتہ خوری سودی بینکاری کس زمرے میں آتے ہیں؟ اسلام میں تو چور کے سزا ہاتھ کاٹنا ہے پھر اسلامی ریاست میں چوری اور اسلام کا نعرہ کیسے ایک ساتھ لگ سکتا ہے۔ ریاست پاکستان تو اس لیے بنائی گئی تھی کہ مسلمان آزادی کے ساتھ دین اسلام پر عمل کر سکیں آزادی کے ساتھ اپنی عبادتیں کرسکیں۔
بظاہر تو مذہب اور سیاست دونوں کا اگر کوئی مقصد یکساں ہے تو وہ سیاسی طاقت حاصل کرنا اور اسے اپنے مقصد کی تکمیل کےلیے استعمال کرنا اس لیے اقتدار کی کشمکش میں سیاست اور مذہب دونوں ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر مذہب کو سیاسی اختیار حاصل ہے تو اس کی خواہش یہ ہے کہ اس کآ فائدہ اٹھا کر خدائی مشن کو پورا کرے جبکہ سیاست اس کے برعکس معاشرے کی ضروریات سہولیات اور تقاضوں کے مطابق کسی بھی قدر سے عاری اپنی پالیسی کو بناتی ہے جس کے مطابق مستقبل کے رائج قوانین اور نظام حکومت کو تبدیل کرنا ممکن رہے
مذہب اور سیاست کے نقطہ نظر کے درمیان دو بنیادی فرق ہیں
1) مذہب الہی قوانین پر اپنے اختیار کا تعین کرتا ہے جو انسانی مداخلت سے تبدیل نہیں ہو سکتے
2) عملی سیاسی انداز میں معاشرے کو آگے بڑھنا چاہیے وقت کے نئے پیدا ہوتے چیلنجوں کے ساتھ خود کو بدلنا اور ایڈجسٹ کرنا چاہیے
سیاست مذہب کو زیر کرنے اور زیر کرنے کے بعد اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہے اس ماڈل میں مذہب سیاست کے ماتحت کردار ادا کرتا ہے۔ مذہب اور سیاست کا آپس میں ٹکراؤ ہو جائے تو یہ ٹکراؤ علیحدگی کا باعث بنتا ہے اس میں مذہب اور سیاست حریف کے طور پر نظر آتے ہیں اور تسلط اور غلبہ کی جدوجہد کے لیے مقابلہ کرتے ہیں
ریاست پاکستان سیکولر ہے یا مذہبی سوال اب بھی وہی ہیں کیونکہ پاکستان سیاست اور مذہب کے درمیان الجھی ہوئی ہے۔
ضروری نوٹ: ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
Leave feedback about this