تحریر: عمارہ کنول
مسٹر بھٹو کی حکومت ختم ہوچکی ہے سارے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ہے قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں۔ صوبائی گورنر اور وزیر ہٹا دیےگئے ہیں۔
یہ دن تھا 5 جولائی 1977 کا جس دن ملک پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب شروع ہوا۔ ایک ایسا مارشل لاء نافذ ہوا جس نے پاکستان کے سوشل فیبرک کو برباد کر دیا گیا اس سے پہلے اس جیسی کوئی مثال نہیں ملتی تھی یہ مارشل لاء تھا جنرل ضیاء الحق کا۔
پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کے نام سے ایک اتحاد بنتا ہے حکومت کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو اس وقت طاقت میں تھے امریکہ اس کو سپورٹ کرتا ہے کیونکہ بھٹو صاحب سوشلسٹ تھے۔
پی این اے کی تحریک کے ذریعے جو اصل تصادم تھا حکومت اس کو جواز بنا کر جنرل ضیاءالحق نے ملک گیر مارشل لاء نافذ کر کے حکومت پر قابض ہو گئے اور پورے بھٹو خاندان کو نظر بند کر دیتے ہیں اور اس کے بعد اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ میرا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے میں 90 دن کے اندر الیکشن کروا کے الگ ہوجاؤں گا اور پھر ہم نے دیکھا کہ یہ 90 دن اگلے 11 سال پورے نہیں ہوتے جب ضیاءالحق صاحب سے پوچھا جاتا تھا کہ آپ الیکشن کیوں نہیں کروا رہے وہ کہتے تھے قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ الیکشن 90 دن کے اندر ہونا ہے آئین ویسے ہی معطل تھا ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولا نافذ تھا۔
سب سے پہلی کاروائی جو ہوتی ہیں وہ انکی آمریت انکے مارشل لاء کے خلاف بولنے والوں پر یعنی صحافیوں اور میڈیا پر ہوتا ہے انکے منہ بند کرنے کے لیے کھلے عام صحافیوں کو کوڑے مارنے کی روایت ڈالی جاتی ہے۔ پھر افغان جنگ چھڑ جاتی ہے افغان جنگ میں حصہ لینے کے لیے آفر ہوتی ہے تقریباً 400 ملین ڈالر تو ضیاءالحق صاحب رولن ڈریگن کو کہتے ہیں میں مونگ پھلیاں نہیں کھاتا یہ مونگ پھلی اپنے پاس رکھو اس کے بعد 400 ملین کی آفر کو بڑھا کر 3 بلین ڈالر کر دیا گیا امریکی ڈالر جیب میں ڈال کر کہا گیا کہ یہ جنگ ہم اللّٰہ کے لیے لڑیں گے۔
افغان جنگ کے بعد تقریباً 4 ملین افغان مہاجرین پاکستان آتے ہیں اور اس کے بعد جن برائیوں نے جنم لیا انکو ہم آج تک ختم نہیں کر پائے جن میں سے ایک تھا کلاشنکوف کلچر اور اسی وقت پاکستان پوری دنیا میں ہیروئن سمگلنگ کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا پاکستان میں رجعت پسند قوانین بنائے گئے جن میں تھا حدود آرڈیننس/ زنا آرڈیننس جس کے نتیجے میں زنابالجبر اور زنابالرضا میں فرق ختم ہو گیا۔ پاکستان کے نصاب میں تبدیلیاں کی گئیں انہوں نے واضح طور پر ہدایت کی کہ تمام نسلی شناختیں ثانوی ہیں یہ وہ دور تھا جس میں محمد بن قاسم کا نام کتابوں میں شامل کیا گیا۔ آرمی ایکٹ میں تبدیلیاں کی گئیں اور حلف میں شامل کیا گیا کہ ہم نظریاتی سرحدوں کے بھی محافظ ہیں فرقہ واریت کو عروج پر پہنچایا گیا زکوٰۃ اور عشر آرڈیننس بنایا گیا جو کہ سیدھا سیدھا شیعہ مخالف تھا ان ہی کے دور میں مدارس سے دہشتگردی جنم لیتی ہے
سیاستدانوں, صحافیوں اور طالب علموں کو جیل میں ڈالنا شروع کیا گیا طلباء تنظیمیں توڑنا شروع کیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مزاحمت نوجوان تنقیدی مفکرین کی طرف سے ہے مزدور تنظیموں کو تباہ کیا ان پر گولیاں برسائیں نوابشاہ میں ہیلی کاپٹر سے فائر مارے گئے ان طلباء اور مزدوروں پر جو احتجاج کر رہے تھے ساتھ ساتھ 25 کوڑوں کی سزا کسی بھی احتجاج میں شریک ہونے والوں کو دی جانے لگی۔
یہ اسلامی حکومت کے قوانین تھے؟ اگر آپ اسلامی حکومت کے خلفائے راشدین کو پڑھ لیں تو وہاں سڑک چھاپ آدمی بھی اگر خلیفہ سے سوال کر لیتا ہے تو خلیفہ اس کو جواب دینے کا پابند تھا مگر ضیاءالحق کے دور میں کوڑے مارے جاتے تھے سوال اٹھانے والے پر۔
اس دور کے اخبار اکثر کالے ہو کر آیا کرتے تھے کیونکہ حکمران طبقہ صرف اپنی مرضی کی خبر عوام تک پہنچاتے تھے۔ ضیاءالحق کے مارشل لاء کے دور میں تقریباً 20,000 سیاسی قیدی بنانے گئے لبرل اکنامکس کو تسلیم کیا گیا اس وقت تقریباً تمام کاروبار سود پر چل رہا تھا۔
17اگست 1988 سی130 طیارہ جس میں جنرل ضیاءالحق سوار تھا بہاولپور میں فضائی حادثے کآ شکار ہوگیا اور جنرل ضیاءالحق اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے اور یوں 11 سالہ مارشل لاء اپنے اختتام کو پہنچا۔ ضیاءالحق کو اسلام آباد میں فیصل مسجد کے قریب دفن کیا گیا۔
ضروری نوٹ: ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
Leave feedback about this