تحریر: عمارہ کنول
میری پٹھان کولیگ لیکچر ختم ہوتے ہی تیزی سے اپنی ہر چیز سمیٹنے لگی حتی کہ پروفیسر کا کلاس سے نکلنے کا انتظار نہیں کیا کلاس سے نکلنے لگی میں نے پوچھا کہ کہاں چلی کہنے لگی اپنے آبائی گاؤں اورکزئی جانا ہے جائیداد کا کوئی تنازعہ تھا اس کا فیصلہ آج ہونا ہے میں نے پوچھا تمہیں کیا لگتا ہے عدالت تمہارے خاندان کے حق میں فیصلہ کرے گی کہنے لگی عدالت نہیں جرگے میں فیصلہ ہو گا میں نے کہا جرگہ کیوں؟ عدالت میں کیوں نہیں؟ کہنے لگی عدالت میں عمر ساری کورٹ کچہریوں کے چکر لگاتے کٹ جاتی ہے مگر فیصلہ نہیں ہو پاتا وہیں جرگے میں دو تین نشستوں میں فیصلہ ہو جاتا ہے یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور میں سوچنے لگی کہ آخر کیوں ہماری عدالت سست رفتار ہے۔
کتاب کھولی تو پہلی لائن میں لکھا تھا انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ 37 ڈی کہتی ہے کہ “ریاست سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گی” سب ہی اہلِ دانش جانتے ہیں کہ جہاں انصاف نہیں ہوگا وہاں ظلم ہوگا۔ چوتھے خلیفۂ راشد امیر المومنین حضرت علیؓ نے کہا تھا کہ “ظلم کے ساتھ کوئی حکومت اور ریاست قائم نہیں رہ سکتی”
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ججوں کو جو مراعات حاصل ہیں ان کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 180 ممالک میں سے پہلے 10 ممالک میں آتا ہے مگر انصاف کی فراہمی میں ہماری عدلیہ 129ویں نمبر پر آتی ہےجو حیرت اور افسوس کی بات ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تنخواہیں بہت بلند ہیں مگر انصاف سست رفتار اور کم یاب ہے۔
مراعات,سہولیات, تنخواہیں,پنشن,پروٹوکول تو خوب ہیں لیکن عوام عدالتوں اور کچہریوں میں دربدر ہیں ان کو انصاف نہیں مل رہا۔ اعلیٰ عدالتوں تک رسائی کے لیے سونا چاہیے۔ جس کے پاس سونے کی چابی نہ ہو اس کے لیے حصولِ انصاف کے لیے عدالت کے ایوان تک رسائی ممکن نہیں ہے اس طرح انصاف خاص طبقے تک محدود ہے غریب پاکستانی عوام انصاف سے محروم ہیں۔
پاکستان کے موجودہ حالات کی ذمہ داری ہماری عدالتی نظام پر آتی ہے کیونکہ یہاں امیر کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ نظامِ انصاف ہے پانامہ کیس میں ایک سیاسی لیڈر کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا اب اسی ریت کو دہرانے کے لیے طاقتور قوتیں ملک کے مشہور لیڈر کو نا اہل کروانا چاہتی ہیں مگر عدالت بے بس ہے۔
عدالت سیاسی لیڈران کو پیش ہونے کا حکم دیتی ہے مگر وہ پیش نہیں ہوتے یوں عدلیہ کا مذاق بنایا جاتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ انتخابات کروانے کا کہتی ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا کسی بھی سیاسی جماعت کی منشا کے برعکس فیصلہ آتا ہے تو اس پر تنقید شروع ہو جاتی ہے عدالتوں پر حملے کروائے جاتے ہیں مگر کوئی کچھ نہیں کہتا کیونکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولا جو چل رہا ہوتا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے لیڈر پارٹی کے چیئرمین سابق وزیراعظم کو عدالت کے باہر سے گرفتار کر لیا جاتا مگر عدالت بروقت کوئی کارروائی نہیں کر سکتی ہے بروقت کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی ہے ملک گیر جلاؤگیرو شرو
ہوجاتا ہے مگر اعلیٰ عدلیہ بےبس نظر آتی ہے۔ آخر کون ہے اس سب کے پیچھے؟ کون ہے جو عدالتی فیصلے کو عمل درآمد نہیں ہونے دیتا؟ کیوں ہماری عدلیہ کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں؟
جب تک عدالتی نظام ٹھیک نہیں ہوگا ملک خداداد کا حال بھی ٹھیک نہیں ہو گا اس لیے ہماری اعلیٰ عدلیہ کو سوچنا ہو گا کہ انکے فیصلے ملک کو کس سمت میں لے جارہے ہیں؟ اور انکو خود سوچنا پڑے گا کہ وہ کسطرح اپنے عدالتی نظام کو بہتر کرسکتے ہیں۔
اگر پاکستان کے نظام کو ٹھیک کرنا ہے تو نظامِ عدل کو درست سمت میں لانا ہوگا نظامِ عدل بہتر ہو گیا تو کسی اور متبادل نظام کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
نوٹ: ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
Leave feedback about this