عا م شہریوں کے مقد مات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے موقع پر عدالت عظمی کو بتایا گیا ہے کہ نو مئی واقعات کا کوئی ملزم اسلام آباد پولیس کی تحویل میں نہیں ہے،پشاور میں چار لوگ زیر حراست ہیں،پنجاب میں ایم پی او کے تحت اکیس افراد گرفتار ہیں،انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 141 افراد گرفتار ہیں،سندھ میں 172 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں،345 افراد گرفتار ہوئے اور ستر رہا ہوئے،ایم پی او کے تحت 117 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں،102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں،
فوج کی تحویل میں کوئی خاتون اور کم عمر نہیں ہیں،کوئی صحافی اور وکیل فوج کی تحویل میں نہیں ہیں،کے پی کے میں دو بچے تحویل میں تھے ،ملٹری کسٹڈی میں ایک پر شک تھا کہ وہ اٹھارہ سال سے کم ہے،اس کا ٹیسٹ کروا رہے ہیں، اگر اٹھارہ سال سے کم ہوا چھوڑ دیا جائے گا،پالیسی فیصلہ ہے کہ بچے اور خواتین آرمی کی حراست میں نہیں ہوں گے،نو مئی کے واقعات پر کسی صحافی کو حراست میں نہیں رکھا گیا،وفاقی حکومت کی صحافیوں کے خلاف کاروائی کی کوئی پالیسی نہیں۔
یہ تفصیلات اٹارنی جنرل آف پاکستان کی طرف سے عدالت عظمی کو معاملہ کی سماعت کے موقع پر دی گئی ہیں۔اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سیکرٹ ایکٹ لگانے کیلئے کوئی انکوئری یا انوسٹی گیشن تو ہونی چاہیے،ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شوائد پر ہوئی، ملکی سلامتی کے معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں ،دیکھنا ہے کہ کیا طریقہ کار ہو گا جس کے تحت مقدمات ملٹری کورٹ کو ھیجوائے جائیں گے ،
اس بحث میں نہیں جانا چاہیے کہ سویلین کا آرمی ایکٹ سے کبھی ٹرائل ہو بھی نہیں سکتا،اگر کوئی سویلین کسی آرمی آفیشل سے مل کر ریاست مخالف کچھ کرے تو یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے،ایسی صورتحال میں دونوں کے درمیان تفریق نہیں کی جا سکتی،کلبھوشن کیلئے قانون عالمی عدالت کے فیصلے پر بنا،اس وقت دو صوبوں میں نگران حکومت ہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ مہربانی کر کے صوبائی حکومتوں سے رابطہ کریں ،
صوبائی حکومتوں سے صحافیوں اور وکلاء سے متعلق پالیسی کا پوچھیں ، بینچ کے کچھ ممبران کو صحافیوں اور وکلاء سے متعلق تحفظات ہیں۔جمعہ کو عدالت عظمی میں کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بنچ نے کی۔
Leave feedback about this