سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹ اور پنجاب الیکشن سے متعلق معاملہ کی مشترکہ سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت ازخود اختیارات میں سپریم کورٹ کے اختیارات بے شک محدود کرے، موسٹ ویلکم لیکن یہ آئینی ترمیم سے ہونی چاہیئے،فریقین کے مطابق حکومت دراصل 184تین کے اثر کو کم تر کر رہے ہیں،حکومت چاہتی ہے کہ 184تین کا دائرہ کم کریں، آئین دائرہ اختیار میں کمی کی اجازت دیتا ہے لیکن آئینی ترمیم کے زریعے ہونی چاہیے ،
نظر ثانی کے لیے عدالتی فیصلوں میں غلطیوں کی نشان دہی کرنا ہوتی ہے ،دیکھنا ہو گا کیا آئین سازوں کو نظر ثانی اور اپیل کا فرق معلوم تھا،نظر ثانی میں سماعت کا حق اور غلط قانون قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اپیل نہیں بنایا جا سکتا۔بدھ کو عدالت عظمی میں کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں 1962 کے عدالتی ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ فیصلہ میں کہا گیا کہ عدالت کو اپنا پرانا فیصلہ ری اوپن کرنے میں بہت ہچکچاہٹ اور احتیاط برتنی چاہیے،فیصلے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حتمی ہونے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے،
چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ آپ کی جانب سے اب تک کے تین پوائنٹ اٹھائے گئے ہیں،فیصلے میں دانش مندی ہے،وہ قانونی عمل کو حتمی بنانے کی بات کر رہے ہیں، بھارت میں حق سماعت نہ ملے تو نظر ثانی ہوتی ہے،ہمارے ہاں فیصلہ غیر قانونی ہو تو نظر ثانی ہوجاتی ہے،غلط قانون کو حتمی نہیں ہونے دیتے، ہم یہ دیکھ رہے ہیں کیا پارلیمنٹ ریویو اسکوپ بڑھا سکتی ہے؟نظر ثانی کے آئینی تقاضے ہیں مگر اسے اپیل میں بدلا نہیں جا سکتا
Leave feedback about this