مالی سال2023-24کا 14ٹریلین روپے سے زائد حجم کا وفاقی بجٹ پیش ،کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایاگیا

گریڈایک سے 16کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 35فیصد، گریڈ 17سے 22کے افسران کی تنخواہ میں 30فیصد اضافہ،پنشن میں 17.50فیصد اضافہ، کم سے کم اجرت 32ہزار روپے ماہانہ
دفاعی بجٹ کی مدمیں18کھرب سے زائد مختص
آئندہ مالی سال میں شرح نمو3.5فیصد،مہنگائی 21فیصد ہوگی،بجٹ خسارہ 6.54فیصد،ٹیکس ریونیو 9ہزار200ارب ہوگا
وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ14ہزار 460ارب روپے،وفاقی پی ایس ڈی پی کے لئے950ارب روپے خرچ ہونگے، وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی اجلاس میں بجٹ پیش کردیا

…………….
بجٹ تقریر
وفاقی حکومت نے مالی سال2023-24کا بجٹ جمعہ کی شام قومی اسمبلی میں پیش کردیا جس کا مجموعی حجم 14ٹریلین روپے سے زائد ہے ۔کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔سرکاری ملازمین میں تنخواہوں میں اضافہ کردیا گیا ہے ،گریڈایک سے 16کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 35فیصدجبکہ گریڈ 17سے 22کے افسران کی تنخواہ میں 30فیصد اضافہ کیا گیاہے،پنشن میں 17.50فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ کم سے کم اجرت 32ہزار روپے ماہانہ کر دی گئی ۔دفاعی بجٹ کی مدمیں18کھرب سے زائد رکھے گئے ہیں، آئندہ مالی سال میں شرح نمو3.5فیصد،مہنگائی 21فیصد ہوگی،بجٹ خسارہ 6.54فیصد،ٹیکس ریونیو 9ہزار200ارب ہوگاجبکہ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ14ہزار 460ارب روپے ہوگا،وفاقی پی ایس ڈی پی کے لئے950ارب روپے خرچ ہونگے۔ سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی اجلاس میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے مالی سال24-2023 کاوفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا ۔وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کے آغاز میں نواز شریف کی حکومت اور پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرنے پر خدا کا شکر گزار ہوں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے بجٹ ا جلاس میں خطاب کے دوران کہا کہ معزز ایوان کے سامنے رواں مالی سال 23-2022 کے نظر ثانی شدہ بجٹ کے اہم نکات پیش کرتا ہوں۔وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا تاہم ٹیکسوں کی موجودہ شرح میں ردوبدل کیا گیا ہے۔رواں مالی سال میں ایف بی آر کے محاصل 7 ہزار 200 ارب روپے کے لگ بھگ رہنے کا امکان ہے۔ جس میں صوبوں کا حصہ 4,129 ارب روپے ہوگا، ہ وفاقی حکومت کا نان ٹیکس ریونیو ایک ہزار 618 ارب روپے ہونے کی توقع ہے۔ وفاق کے محاصل 4 ہزار 689 ارب روپے ہوں گے۔ اسحاق ڈار نے کہاکہ کل اخراجات کا تخمینہ 11,090 ارب روپے ہے، پی ایس ڈی پی کی مد میں اخراجات 567 ارب روپے تک رہنے کا امکان ہے۔انہوں نے بتایا کہ دفاع پر کم و بیش ایک ہزار 510 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ سول حکومت کے مجموعی اخراجات 553 ارب، پنشن پر 654 ارب روپے سبسڈیز کی مد میں ایک ہزار 93 ارب روپے اور گرانٹس کی مد میں 1,090 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ مالی سال 17-2016 میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد تک پہنچ چکی تھی، مہنگائی 4 فیصد تھی، غذائی اشیا کی مہنگائی صرف 2 فیصد تھی، پالیسی ریٹ ساڑھے 5 فیصد، اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ون اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور پاکستان 2020 تک جی-20 ممالک میں شامل ہونے والا تھا، پاکستانی کرنسی مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کے ریکارڈ سطح پر تھے، بجلی کے نئے منصوبوں سے 12-16 گھنٹوں کی لوڈشیدنگ سے نجات مل چکی تھی، انفرااسٹرکچر سسٹم، روزگار کے مواقع اور آسان قرضوں جیسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاچکا تھا، ملک میں مان و امان اور سیاسی استحکام تھا، ان حالات میں آنا فاناً سازشوں کے جال بچھا دیے گئے، اگست 2018 میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی، اس سلیکٹڈ حکومت کی ناکام معاشی کارکردگی کے سبب پاکستان 24ویں بڑی معیشت کے درجے سے گر کر 47ویں نمبر پر آگیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سخت فیصلوں سے عوام کو مہنگائی اور غربت میں اضافے کاسامنا کرنا پڑے گا،روپے کی قدر میں کمی سے معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، حکومت نے سیاست نہیں ریاست بچاو پالیسی پر عمل کیا۔اپنی سیاسی ساکھ کی قربانی دے کر معیشت کی بحالی کو ترجیح دی۔اسحاق ڈار نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کاقرضہ250 کھرب روپے تھا، پی ٹی آئی کی معاشی بدانتظامی اور بلند ترین بجٹ خساروں کی وجہ سے 490کھرب تک پہنچ گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں 1947سے2018تک 71سال کاسب سے زیادہ قرضہ لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ آج پاکستان تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے گزر رہا ہے، خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت ہے، اس لیے مالی سال 22-2021 تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ ایوان کے سامنے رکھوں گا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکاونٹ خسارہ 17.5 ڈالر تک پہنچ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گررہے تھے، آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کے لیے اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس صورتحال کو جان بوجھ کر خراب کیا۔اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی دی، ایسے اقدامات اٹھائے جو آئی ایم ایف شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی، سابقہ حکومت کے وزیرخزانہ نے 2 صوبائی وزارئے خزانہ کو فون کرکے آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژکروانے کی کوشش کی۔ اسحاق ڈا ر نے کہا کہ مالی سال 17-2016 تک وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد پر پہنچ چکی تھی۔ افراط زر کی شرح 4 فیصد تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگائی میں سالانہ اوسطاً اضافہ صرف 2 فیصد تھا۔ پالیسی ریٹ 5.5 فیصد اور فیصد اور سٹاک ایکسچینج ساوتھ ایشیاء میں نمبر 1 اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔ پاکستان خوشحالی اور معاشی ترقی کی جانب گامزن تھا اور دنیا پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی معترف تھی۔ گلوبل ادارہ (Price Waterhouse Coopers (PWC کی projection کے مطابق سال 2030 تک پاکستان 2010-G کا رکن بننے یعنی دنیا کی 20 سب سے بڑی معیشتوں میں شامل ہونے جا رہا تھا۔ پاکستانی روپیہ مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کا بلند ترین تاریخی ریکارڈ قائم کر چکے تھے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے نئے منصوبے مکمل کیے گئے۔اس سے ملک میں 12 سے 16 گھنٹے کی روزانہ لوڈ شیڈنگ سے نجات حاصل ہوئی اور ملک کی معاشی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ کو دور کیا گیا۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کے شعبے ، ہائی ویز کی تعمیر ، Mass Transit Systems ، روزگار کی فراہمی کے مواقع اور آسان قرضوں کی فراہمی جیسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کی گئی تھی یہ ایک خوشحالی، استحکام اور ترقی کا دور تھا۔ یاد رہے کہ مالی سال 18-2017 میں وفاقی ترقیاتی بجٹ کا ہدف پہلی دفعہ 1001 ارب روپے رکھا گیا تھا جو آج تک دوبارہ نہیں رکھا جاسکا۔ ضرب عضب اور ردالفساد آپریشنز اور افواج پاکستان کی قربانیوں کے مرہون منت ملک بھر میں دہشت گردی کے ناسور پر قابو پا کر اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ پاکستان میں امن وامان اور سیاسی استحکام تھا۔بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ ان حالات میں آنا فانا منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازشوں کے جال بچھا دیئے گئے۔ جس کے نتیجے میں اگست 2018 میں ایک Selected حکومت وجود میں آئی۔ اس Selected حکومت کی معاشی ناکامیوں پر اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جو ملک 2017 میں دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا وہ 2022 میں گر کر 47 ویں نمبر پر آگیا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان معاشی تاریخ کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہا ہے میں انتہائی وثوق سے کہنا چاہوں گا کہ آج کی خراب معاشی صورت حال کی اصل ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت ہے موجودہ حالات پچھلی حکومت کی معاشی بد انتظامی، بدعنوانی، عناد پسندی اور اقربا پروری کا شاخسانہ ہیں لہذا یہ مناسب ہوگا کہ میں مالی سال 22-2021 تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ اس معزز ایوان کے سامنے رکھوں۔ جناب اسپیکر 4 پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ 17.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے۔آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کے لیے انتہائی اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس نازک صورتحال میں حالات کو جان بوجھ کر خراب کیا۔ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی کے ذریعے کمی کردی۔ ایسے اقدامات اٹھائے جو کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ یہاں تک کہ اس ضمن میں آپ کو یاد ہو گا کہ سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے فون کر کے دو صوبائی وزرائے خزانہ پر شدید دبائو ڈالا کہ وہ اپنا قومی فریضہ انجام نہ دیتے ہوئے آئی ایم ایف کے پروگرام کو سبوتاژ کریں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ اقدامات نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھانے کے مترادف تھے ان اقدامات نے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا اس پر ستم ظریفی یہ کہ پی ٹی آئی نے تمام حالات کی ذمہ داری نئی حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی یہ کوشش محض چور مچائے شور کے مترادف تھی ان کو یقین تھا کہ معاشی حالات اتنے خراب ہو جائیں گے کہ کوئی پاکستان کو ڈیفالٹ سے نہیں بچا سکے گا۔ لہذا وہ حقائق کو مسخ کر کے ان کی ذمہ داری آنے والی حکومت پر ڈالنا چاہتے تھے یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل تھا کسی محب وطن، سیاسی جماعت کو اس طرح کا طرز عمل زیب نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور وزیراعظم شہباز شریف اور اتحادی جماعتوں کے بھر پور تعاون سے ایسے معاشی فیصلے کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے ان ملک دشمن لوگوں کے عزائم پورے نہیں ہو پار ہے خدائے بزرگ و برتر نے نہ صرف پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا بلکہ ان سازشی عناصر کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ان کے دور میں مالی خسارے کا خطرناک حد تک بڑھنا تھا۔ مالی سال 22-2021 کا خسارہ GDP کے 7.9 فیصد کے برابر جبکہ Primary Deficit جی ڈی پی کے 3.1 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔ موجودہ اتحادی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کو اْس وقت بھی علم تھا کہ پاکستان کو معاشی بحالی کے لیے انتہائی تکلیف دہ اقدامات کرنے پڑیں گے جس کی وجہ سے عوام کو مہنگائی اور غربت میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روپے کی قدر میں کمی اور Interest Rate میں تیزی سے اضافے کے نتیجے میں معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ حکومت نے ‘‘سیاست نہیں ریاست بچائو پالیسی پر عمل کیا۔ اپنی سیاسی ساکھ کی قربانی دے کر معیشت کی بحالی کو ترجیح دی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ جناب اسپیکر 6 جون 2018 میں پاکستان کا Public Debt تقریباً 25 ٹریلین روپے تھا پی ٹی آئی کی معاشی بدانتظامی اور بلند ترین بجٹ خساروں کی وجہ سے یہ قرض مالی سال 22-2021 تک 49 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا تھا اس طرح پچھلے چار سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947 سے 2018 تک یعنی 71 سال میں لیے گئے قرض کا 96 فیصد تھا۔ اس طرح Public Debt and Liabilities اس عرصہ میں 100 فیصد سے بڑھ کر 30 ٹریلین سے 60 ٹریلین روپے پر پہنچ گیا۔ جون 2018 میں External Debt and Liabilities 95 ارب ڈالر تھیں جون 2022 تک یہ 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھیں۔ قرضوں کے مجموعی حجم میں اس قدر اضافے کی وجہ سے حکومت پاکستان کے Interest Expenditure میں بے پناہ اضافہ ہوا اور نتیجتاً پاکستان کی معیشت Debt Servicing کی وجہ سے بہت زیادہ Vulnerable ہوگئی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو 2013 میں 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ ورثے میں ملا جو کہ مالی سال 2018 تک بڑھ کر 1148 ارب روپے پر پہنچ گیا یعنی 5 سالوں میں گردشی قرضوں میں 645 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ یعنی 129 ارب سالانہ بڑھا۔ جبکہ پی ٹی آئی حکومت کے غیر سنجیدہ رویوں اور بدنظمی کی وجہ سے توانائی کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہوا۔ پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور حکومت میں گردشی قرضوں میں 1319 ارب روپے کا اضافہ کے ساتھ یہ 1148 ارب سے بڑھ کر 2467 ارب روپے پر پہنچ گیا یعنی سالانہ 329 ارب روپے بڑھا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ8 بجٹ خسارہ پاکستان کے معاشی مسائل میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔پی ٹی آئی حکومت ٹیکس وصولی کے نظام میں بہتری لانے میں یکسر ناکام رہی جبکہ اخراجات میں بے پناہ اضافہ کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ PTI کے چار سالہ دور میں GDP کے تناسب سے اوسط بجٹ خسارہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پانچ سالہ دور سے تقریباً دو گنا تھا۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری سے کام لیا۔ Austerity Measures لیے گئے، Untargeted Subsidies کو بہت حد تک ختم کیا گیا اور Grants کی مد میں پچھلے سال کے مقابلے میں اخراجات میں کمی کی گئی۔ ان اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال میں GDP کے 7.9 فیصد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں GDP کا 7.0 فیصد ہو گیا ہے۔ اس طرح بجٹ خسارے میں ایک سال میں GDP کے تقریباً 1 فیصد کے برابر کمی لائی گئی۔ یاد رہے کہ خسارے میں یہ کمی Interest Expenditure میں ہوش ربا اضافے کے باوجود کی گئی جبکہ Primary Deficit کو صرف ایک سال کی مدت میں GDP کے 3.1 فیصد سے کم کر کے 0.5 فیصد پر لایا گیا۔ یعنی 2.6 فیصد کے برابر کمی ہوئی۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج کی معاشی صورتحال اور عام آدمی کے لیے مشکلات پی ٹی آئی حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں، بدعنوانیوں اور ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ پاکستان کی عوام اس بات سے پوری طرح آگاہ ہو چکے ہیں کہ موجودہ معاشی مشکلات اور مہنگائی کی مکمل ذمہ دار گزشتہ حکومت ہے۔ ماضی کی Selected حکومت نے اپنے سیاسی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے ملک کی معیشت کو شدید نقصان سے دوچار کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی دور اندیش قیادت میں حکومت نے مشکل ترین حالات میں حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی حکومت نے اپنے سیاسی نقصانات کی پرواہ کیے بغیر ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا میری گزارش ہے کہ پاکستان کی عوام یہ پہچان لے کہ کس نے ملک کو بچانے کی کوشش کی اور کون پاکستان کی تباہی کا باعث بنتا رہا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ میں 9 مئی کو رونما ہونے والے المناک، شرمناک، ملک دشمن واقعات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ سیاسی جماعت کا لبادہ اوڑھے مسلح دہشت گرد جتھوں نے پاکستان کی سالمیت ، ساکھ اور قومی وقار کو مجروح کرنے کی گھنائونی اور منظم سازش کی۔ پاک افواج کے شہداء کی قربانیوں کو یکسر نظر انداز کیا اور اْن کی یادگاروں کی بے حرمتی کا جرم کیا ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ دفاعی تنصیبات کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسے ملک دشمن عناصر اپنی ناپاک حرکتوں کی وجہ سے خود ہی بے نقاب ہو چکے ہیں۔ یہ گروہ کسی صورت بھی نرمی اور رحم دلی کے حقدار نہیں۔ ایسے تمام عناصر کو پاکستان کے قوانین کے مطابق سخت سے سخت سزائیں دی جانی چاہیں تاکہ آئندہ کسی کو بھی ایسے ناپاک عزائم کے ساتھ ملک دشمن سرگرمیوں میں حصہ لینے کی جرات نہ ہو۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ملکی معیشت کو پچھلے ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے سال پاکستان کی عوام خاص طور پر صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عوام کو سیلاب کی ناگہانی آفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سیلاب کی وجہ سے ملکی املاک اور معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ عوام کی بحالی اور آباد کاری کے لیے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے بھر پور طریقے سے حصہ لیا مزید برآں اقوام متحدہ کے ادارے FAO کے تخمینے کے مطابق سال 2021 کے مقابلے میں سال 2022 کے دوران مبین الاقوامی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پاکستان تیل، گندم، دالیں خوردنی تیل اور کھاد درآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہے جس کی ہمیں زرمبادلہ میں ادا ئیگی کرنا پڑتی ہے اور یہ مہنگائی میں اضافے کا باعث بنا۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی صورتحال جس میں یوکرین کی جنگ، عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ممالک میں شرح سود میں اضافہ نے ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ پاکستان کی معیشت کا دوسرا بڑا مسئلہ (Current Account Deficit (CAD ہے۔ PTI حکومت کی وجہ سے مالی سال 22-2021 میں CAD 17.5 ارب ڈالر ہو گیا تھا۔ موجودہ حکومت کے بروقت اقدامات سے CAD میں تقریباً 77 فیصد کمی آئی۔ انشاء اللہ مالی سال 2022-23 کے اختتام پر یہ خسارہ کم ہو کے تقریباً 4 ارب ڈالر رہ جائے گا۔ اسی طرح تجارتی خسارہ جو کہ سال 22-2021 میں 48 ارب ڈالر تھا، مالی سال 23-2022 میں تقریباً 26 ارب ڈالر متوقع ہے۔ اس طرح ایک سال میں تجارتی خسارے میں تقریباً 22 ارب ڈالر کی کمی لائی گئی ہے۔ CAD اور تجارتی خسارے میں کمی لاتے ہوئے حکومت نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ صرف Luxury Goods اور دیگر غیر ضروری درآمدات کو روکا جائے تاکہ ملک کی معاشی پیداواری صلاحیت میں کم سے کم منفی اثرات مرتب ہوں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ مخلوط حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے الحمد للہ ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گراوٹ کو کم کیا گیا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کرلیا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام حکومت کی اولین ترجیح ہے اسی لیے حکومت با قاعدگی سے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہماری حتی المقدور کوشش ہے کہ جلد سے جلد SLA پر دستخط ہو جائیں اور پروگرام کا نواں جائزہ رواں ماہ میں مکمل ہو جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کو عوام کی مشکلات کا اندازہ ہے اور اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے زیادہ سے زیادہ اقدامات کیے جائیں۔ تا کہ عوام کو مہنگائی کے اثرات سے بچایا جاسکے۔ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے چند ماہ پہلے BISP کے تحت دیئے جانے والے کیش ٹرانسفر کی شرح میں 25 فیصد اضافہ کیا اور بجٹ کو 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے کر دیا۔ اس کا اطلاق یکم جنوری 2023 سے ہو چکا ہے۔پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مفت آٹے کی تقسیم کی گئی اس کے علاوہ وفاقی حکومت کی طرف سے یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے ذریعے عوام کو سستی اشیاء کی فراہمی کے لیے 26 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔پچھلے ایک ماہ میں حکومت نے دو مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی۔ نتیجتاً پیٹرول کی قیمت میں 20 روپے، ڈیزل کی قیمت میں 35 روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 17 روپے کمی کی گئی۔ امید ہے اس کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا جارہا ہے، سرکاری ملازمین کی کم سے کم پنشن 10 ہزار سے بڑھا کر 12 ہزار کی جارہی ہے، وفاقی حدود میں کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے کی جارہی ہے، صوبے اس حوالے سے اپنا فیصلہ کریں گے۔ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیوٹیوٹ (ای او بی آئی) کے ذریعے پنشن حاصل کرنے والے پنشنرز کی کم سے کم پنشن کو 8500 روپے سے بڑھا کر 10ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مقروض افراد کی بیواؤں کے 10لاکھ روپے کے قرضے حکومت ادا کرے گی، قومی بچت کے شہداء اکاؤنٹ میں ڈپازٹ کی حد 50لاکھ روپے سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جارہی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے بجٹ کو 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400ارب کردیا ہے۔ اسحاق ڈار نے بتایا کہ اسی طرح قرضے اور واجبات اسی عرصے میں 100 فیصد سے بڑھ کر 300 کھرب سے 600 کھرب روپے تک پہنچ گیا، جون 2018 میں غیر ملکی قرضے اور واجبات 95 ارب ڈالر تھے جوکہ جون 2022 تک 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو 2013 میں 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ ورثے میں ملا جو 208 تک بڑھ کر 1148 ارب روپے پر پہنچ گیا، پی ٹی ا?ئی کے 4 سالہ دور میں یہ 1319 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 2467 ارب روپے پر پہنچ گیا۔ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری سے کام لیا اور اخراجات میں کمی گئی، ان اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال میں جی ڈی پی کے 7.9 فیصد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں جی ڈی پی کا 7.0 فیصد ہوگیا، بنیادی خسارے کو صرف ایک سال کی مدت کے دوران جی ڈی پی کے 3.1 فیصد سے کم کرکے 0.5 فیصد پر لایا گیا۔انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چینلجز کا سامنا کرنا پڑا، سیلاب کے سبب معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او کے تخمینے کے مطابق سال 2021 کے برعکس سال 2022 کے دوران عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا، تیل، گندم، دالیں، خوردنی تیل اور کھاد کی ہمیں زرمبادلہ میں ادائیگی کرنے پڑی جو مہنگائی میں اضاے کا باعث بنا، یوکرین جنگ، عالمی سطح پر تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ماملک میں شرح سود میں اضافے نے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا۔انہوں نے کہا کہ جولائی 2022 سے اب تک حکومت ماضی کے تقریباً 12 ارب ڈالر کے بین الاقوامی قرضہ جات کی ادائیگی کر چکی ہے اور تمام تر بیرونی ادائیگیاں بروقت ہو رہی ہیں۔ اس کے باوجود ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب 34 کروڑ ڈالر ہیں۔ حکومت نے دوست ممالک اور ڈویلپمنٹ پارٹنرز (Development partners) کے ساتھ بھی بہتر تعلقات قائم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں جو کہ پچھلے چند سالوں میں تنزلی کا شکار ہو گئے تھے۔ اس سے معاشی بحالی میں مدد ملے گی۔ حکومت نے غیر ملکی زرمبادلہ کی غیر قانونی ترسیل کو ختم کرنے کیلئے بھی انتظامی اقدامات اٹھائے ہیں جس کے مثبت نتائج ظاہر ہو رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے زرعی شعبے پر سیلاب کے تباہ کن اثرات اور مجموعی مشکلات کو دور کرنے کے لیے 2 ہزار ارب روپے سے زائد کا کسان پیکیج دیا مجھے خوشی ہے کہ اس پیکیج کے معیشت پر مثبت اثرات آئے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود زرعی شعبہ میں 1.5 فیصد کی گروتھ ہوئی ہے۔ گندم کی Bumper Crop کی وجہ سے 28 ملین ٹن سے زائد پیداوار ہوئی ہے اور کسان کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری دیہی معیشت میں 1500 سے 2000 ارب روپے اضافی منتقل ہوئے۔ اس سے ملک کی مجموعی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔ بجٹ 24-2023 کے ذریعے حکومت زرعی شعبے کے لیے مراعات کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی تفصیل آگے چل کر پیش کی جائے گی۔ امید ہے کہ یہ اقدامات ملک میں فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے اہم کردار ادا کریں گے۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ رواں مالی سال کے دوران سیلاب سے متاثرہ علاقے ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا نہ کرسکے۔حکومت نے ان علاقوں میں بحالی کا کام مکمل کر لیا ہے۔ تعمیر نو کے لیے حکومت نے 578 ارب روپے کے منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا ہے اور انشاء اللہ اگلے مالی سال سے یہ علاقے معیشت میں دوباہر اپنا فعال کر دیں گے۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں اندرونی اور بیرونی مشکلات کی وجہ سے LSM سیکٹر میں منفی گروتھ کا رحجان رہا، اس کی بڑی وجہ زر مبادلہ کی کمی تھی، جس کی وجہ سے خام مال کی دستیابی میں مشکلات پیدا ہوئیں، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خام مال کو ترجیحی بنیاد پر ایل کھولنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ حکومت اگلے مالی سال میں اس ان رحجان کو ریورس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، وزیراعظم شہبازشریف کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر اگلے سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، اسی طرح یہ عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں گراوٹ، ترقی یافتہ ممالک میں’ انوینٹری بلڈ اپ’ میں کمی اور ملک میں خام مال کی بہتر دستیابی کی وجہ سے بھی ایل ایس ایم میں بہتری آئے گی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مندرجہ بالا اقدامات کے نتیجے میں ملکی معیشت میں ایک Vulnerableصورتحال سے نکل کر استحکام کی طرف آرہی ہے، بجٹ مالی سال 2023-2024ء￿ کے ذریعے ملک استحکام سے ترقی کی جانب گامزن ہوگا، انشاء اللہ۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ اب میں بجٹ مالی سال 2023-2024ء کو عمومی سمت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، معیشت میں بہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے، ان حالات کے مد نظر ہم نے اگلے مالی سال کے لیے ترقی کا ہدف صرف 3.5 فیصد رکھا ہے، جو کہ ایک Modest targetہے، جلد ہی ملک جنرل الیکشنز کی طرف جانے والا ہے، اس کے باوجود اگلے مالی سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کی بجائے ایک ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے بھر پور مشاورت کے بعد اْن Elements of real economy کومنتخب کیا ہے۔ جن کی بدولت ملک کم سے کم مدت میں ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہوسکتا ہے۔بجٹ تجاویز میں ہمارے ترجیحی Drivers of Growth مندرجہ ذیل ہیں، زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگلے مالی سال میں اس شعبے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی تجاویز ہیں:زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ بجلی / ڈیزل کے بل کسان کے سب سے بڑے اخراجات میں شامل ہیں اگلے مالی سال میں 50,000 زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ معیاری بیج ہی اچھی فصل کی بنیاد ہے ملک میں معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح Sapplings کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے۔ موسمی تبدیلی کی وجہ سے وجہ سے Harvesting کی مدت کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر کسان نے تیسری فصل بھی اْٹھانی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ پکی ہوئی فصل کو جلد سے جلد سنبھالا جائے۔ اس کے لیے Combine Harvesters کی ضرورت ہے۔بجٹ تقریر کے دوران اسحاق ڈار نے کہا کہ Combine Harvester کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے یہ تجویز ہے کہ ان پر تمام ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنیٰ دیا جائے۔ چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے Rice Planters, Seeder اور Dryers کو بھی ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنیٰ کی تجویز ہے۔ Agro Industry دیہی معیشت میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بجٹ میں Agro Industry کو oncessional قرض کی فراہمی کے لیے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ زرعی اجناس کی اصل Value Addition اْن کی Processing میں ہے اس سے اجناس بالخصوص پھل اور سبزیوں کے ضائع ہونے کا احتمال بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ اسکے علاوہ Food Processing Units روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں لگائی جانے والے Agro-based Industrial Units جن کا سالانہ Turnover 80 کروڑ روپے تک ہوگا ان کو تمام ٹیکسز سے 5 سال کے لیے مکمل استثنیٰ حاصل ہوگا۔ PM’s Youth, Business and Agriculture Loan Scheme کے تحت چھوٹے اور درمیانی درجے کے آسان قرضوں کو جاری رکھا جائے گا اور اس مقصد کے لیے اگلے مالی سال میںمارک اپ سبسڈی کے لیے 10 ارب روپیفراہم کیے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کے لیے اگلے سال 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، پیداواری میں صلاحیت میں اضافے کے لیے چھوٹے کسانوں کو کم مارک اپ پر صوبائی حکومتوں کی شراکت سے قرضہ جات فراہم کیے جائیں گے، اس مد میں 10 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔بجٹ تقریر کے دوران اسحاق ڈار نے کہا کہ IT and IT Enabled Services معیشت کے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا شعبے ہیں اور ان کا برآمدات میں نمایاں حصہ ہے ،عالمی معیشت میں مسائل کی وجہ سے یہ شعبہ بھی مشکلات کا شکار ہوا۔ پھر بھی ہمیں یقین ہے کہ یہ شعبہ آنے والے سالوں میں Engine of Growth ثابت ہو گا۔ پاکستان اپنا کاروبار کرنے والے Free Lancers کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ان کو در پیش مسائل کا حل اور عمومی طور پر اس شعبے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں، برآمدات کو بڑھانے کے لیے انکم ٹیکس 0.25 فیصد کی رعایتی شرح لاگو ہے۔ یہ سہولت 30 جون 2026 تک جاری رکھی جائے گی۔ Free Lancers کو ماہانہ سیلز ٹیکس گوشوارے جمع کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کاروباری ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی Export پر Free Lancers کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے لیے ایک سادہ Single Page انکم ٹیکس ریٹرن کا اجراء کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ IT and IT Enabled Service Providers کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنی برآمدات کے ایک فیصد کے برابر مالیت کے Software and Hardware بغیر کسی ٹیکس کے درآمد کر سکیں گے۔ ان درآمدات کی حد 50 ہزار ڈالر سالانہ مقرر کی گئی ہے۔IT اور IT Services کے Exporters کے لیے Automated Exemption Certificate جاری کرنے کو یقینی بنایا جائے گا۔ IT شعبہ کو SMES کا درجہ دیا جا رہا ہے جس سے اس شعبے کو Concessional Income Tax Rates کا فائدہ ملے گا۔ IT کے کاروبار کی Mentoring کے لیے Venture Capital کی بہت اہمیت ہے۔ بجٹ میں 5 ارب روپے سے کاروباری سرمائے کی فراہمی کے لیے حکومتی وسائل سے Venture Capital Fund کا قیام کیا جائے گا۔ ICT کی حدود میں IT Services پر سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح کو 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جارہی ہے۔ IT کے شعبے میں قرضہ جات کی فراہمی کو ترغیب کے لیے بینکوں کو اس شعبے میں 20 فیصد کے رعایتی ٹیکس کا استفادہ حاصل ہوگا۔ اگلے مالی سال میں 50 ہزار IT Graduates کو Professional Training دی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ SMEs معیشت کی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے انکی نشو ونما پر اتنی توجہ نہیں دی کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق معیشت میں حصہ ڈال سکیں۔ بجٹ مالی سال 24-2023 میں SMES کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جائیں گے، کنسٹرکشن ، زراعت اور SMEs کی حوصلہ افزائی کے لئے ان شعبوں کو قرضے فراہم کرنے والے بینکوں کو ایسے قرضوں سے ہونی والی آمدن پر 39 فیصد کی بجائے 20 فیصد Concessional Tax کی سہولت اگلے 2 مالی سالوں میں یعنی 30 جون 2025 تک میسر ہوگی۔ SMES کے ٹیکس مراعات کے نظام کو وسعت دے کر SMES کا Turnover Threshold کو 25 کروڑ سے بڑھا کر 80 کروڑ روپے کیا جا رہا ہے۔ PM’s Youth Loan Programme کے ذریعے چھوٹے کاروبار کو رعایتی قرضوں کی فراہمی کے لیے اس مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی ایک سکیم کے تحت SME کے قرضوں کو صرف 6 فیصد مارک اپ پر Refinance کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بنگ SME کی Credit History نہ ہونے کی وجہ سے ایسے قرضے دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے حکومت پاکستان اس مد میں دیئے گئے نئے قرضوں کا 20 فیصد تک Risk اٹھائے گی۔ایس ایم ای فنانس سکیم کو دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے، SMEs کے لیے علیحدہ Credit Rating Agency کے قیام کی تجویز ہے۔ بجٹ تقریر جاری رکھتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ صنعتی بالخصوص برآمدی صنعت ملک کی معیشت کا اہم ترین حصہ ہے۔ برآمدات کی ترویج کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جارہے ہیں، وزیر اعظم کی سربراہی میں Export Council of Pakistan کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ یہ کونسل ہر سہ ماہی میں کم سے کم ایک میٹنگ منعقد کرے گی اور برآمدات سے متعلق فیصلے کرے گی۔Minerals اور Metals کی برآمد کی ترویج کے لیے کسی بھی Online Market Place کے ذریعے کسی بھی مقامی خریداری پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔ Export Facilitation Scheme کا اجراء کیا جاچکا ہے۔ اس کے تحت Exporters کی سہولیات میں اضافہ ہوگا۔ تمام Listed Companies پر Minimum Tax، 1.25 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کر دیا گیا ہے۔ Textile کی انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے مقامی طور پر تیار نہ ہونے والے Synthetic Filament Yarm پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے۔ اس طرح Pet Scrap پر کسٹم ڈیوٹی کو 20 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کیا جارہا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ترسیلات زر زرمبادلہ کا اہم ترین ذریعہ ہیں ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترسیلات زر ہماری برآمدات کے 90 فیصد کے برابر ہیں۔ Formal Channels سے ترسیلات زر کو فروغ دینے کے لیے مندرجہ ذیل مراعات دی جائیں گی، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے Foreign Remmittance کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد Immovable Property خرید نے پر موجودہ 2% Final Tax ختم کیا جا رہا ہے۔Remittance Cards کی Category میں ایک نئے ڈائمنڈ کارڈ کا اجرا کیا جارہا ہے جو کہ سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زائد Remittance بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔ اس Category کے لیے مندرجہ ذیل مراعات دی جائیں گی۔پاکستانی ایئر پورٹس پر Fast Track Immigration کی سہولت۔ Remittance Card Holders کو قرعہ اندازی کے ذریعے بڑے انعامات دینے کے لیے اسکیم کا اجراء کیا جائے گا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ تعلیم کی اہمیت پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی۔ گو کہ یہ Subject صوبائی ذمہ داری ہے لیکن وفاق اس کی ترویج میں اپنا بھر پور حصہ ڈالتا ہے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات کیے جارہے ہیں، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے Current Expenditure میں 65 ارب اور Development Expenditure کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لیے پاکستان انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس کے لیے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ یہ فنڈ میرٹ کی بنیاد پر ہائی سکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کو وظائف فراہم کرے گا۔ ہمارا ہدف ہے کہ کسی ہونہار طالبعلم کو وسائل میں کمی کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ ہونا پڑے۔لیپ ٹاپ سکیم جس کو پنجاب میں 18-2013 کے دوران بڑی کامیابی سے چلایا گیا تھا۔ رواں مالی سال میں وفاقی حکومت نے 1 لاکھ لیپ ٹاپ مستحق طلبہ میں تقسیم کا اجراء￿ کیا۔ اسی اسکیم کو جاری رکھنے کے لیے آئندہ مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی کھیل تعلیم کا ایک لازمی حصہ ہیں بجٹ میں سکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں خواتین کی ترقی کے لئے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس میں سکلز ڈویلپمنٹ کاروبار کے لیے ستے قرضے اور کاروبار چلانے کے لیے تربیت جیسے منصوبے چلائے جائیں گے۔ کاروباری خواتین کے لیے ٹیکس کی شرح میں بھی چھوٹ دی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے ملک کے نوجوان حکومت کی خاص توجہ کے متقاضی ہیں کیونکہ آج کے نوجوان ہی اس ملک کے روشن مستقبل کے ضامن ہیں۔ وہ قومی ترقی اور خوشحالی میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس لئے تجویز ہے کہ آئندہ تین برس تک کسی نوجوان یا نوجوانوں پر مشتمل AOP کی طرف سے شروع کئے جانے والے کاروبار سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں %50 تک کمی کی جائے۔ یہ رعایت Individual یا AOP کی صورت میں ہمیں لاکھ روپے تک اور Company کی صورت میں پچاس لاکھ روپے تک ہو گی۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ کاروبار کے مالک کی عمر تمہیں سال تک ہو اور یہ کاروبار یکم جولائی 2023 یا اس کے بعد شروع کیا جائے۔ اس سے کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لینے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور نئے Business Ideas رکھنے والے Business Leaders سامنے آسکیں گے۔ Prime Minister Youth Programme for Small Loans کے تحت اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے رعایتی ریٹ پر قرضہ جات کی فراہمی کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ Prime Minister Youth Skills Programme کے تحت نوجوانوں کو Specialized Training دینے کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے ہیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ کنسٹرکشن سیکٹر معاشی پیداوار میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس شعبہ سے چالیس سے زیادہ صنعتیں جڑی ہوئی ہیں۔ Builders اور عام لوگوں کو نئے گھر اور عمارتوں کی تعمیر پر مراعات دینے کے لیے ا?ئندہ تین سال تک Construction Enterprise کی کاروباری آمدن پر ٹیکس کی شرح میں 10 فیصد یا پچاس لاکھ روپے، دونوں میں سے جو رقم کم ہو رعایت دی جائے گی۔ اور وہ افراد جو اپنی ذاتی تعمیرات کروائیں انہیں تین سال تک 10 فیصد Tax Credit یا دس لاکھ روپے، جو رقم بھی کم ہو رعایت دی جانے کی تجویز ہے۔ اس Concession کا اطلاق یکم جولائی 2023 اور اس کے بعد سے شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا۔ (Real Estate Investment Trust (REIT سے متعلقہ Tax مراعات کو 30 جون 2024 تک توسیع دی جارہی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک کے پسے ہوئے طبقے کی مالی مشکلات کو کم کرنا بھی اس بجٹ کی اہم ترجیحات میں شامل ہے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام غربت سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان کا ایک Flagship پروگرام ہے۔ مالی سال -22-2021 میں اس پروگرام کے لیے 250 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ موجودہ حکومت نے بجٹ 23-2022 میں 360 ارب روپے تک بڑھا دیا تھا۔ رواں مالی سال کے دوران اس مد میں 40 ارب روپے کا مزید اضافہ کر کے 400 ارب کیا گیا۔ اگلے مالی سال کے دوران حکومت نے اس مد میں 450 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز دی ہے، اس پروگرام کے تحت چلنے والی چند اہم سکیمز مندرجہ ذیل ہیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ مالی سال 24-2023 میں BISP کے تحت 93 لاکھ خاندانوں کو 8,750 روپے فی سہ ماہی کے حساب سے بینظیر کفالت کیش ٹرانسفر کی سہولت میسر ہوگی۔ جس کے لیے 346 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ حکومت یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ آئندہ مالی سال میں افراط زر کی مماثلت سے اس میں اضافہ بھی کرے گی۔ بینظیر تعلیمی وظائف پروگرام کا دائرہ 60 لاکھ بچوں سے بڑھا کر تقریباً 83 لاکھ تک کیا جائے گا۔ جن میں 52 فیصد تعداد بچیوں کی ہے۔ اس مقصد کے لیے 55 ارب روپے سے زائد کی رقم رکھی گئی ہے۔92 ہزار طالب علموں کو بینظیر انڈر گریجویٹ سکالر شپ دیا جائے گا جس کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔بینظیر نشوونما پروگرام تمام اضلاع میں جاری رہے گا اور پروگرام سے مستفید ہونے والے بچوں کی تعداد بڑھا کر 15لاکھ کی جائے گی۔ جس کے لیے 32 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے لیے 35 ارب روپے سے مستحق افراد کے لیے آئے، چاول، چینی، دالوں اور گھی پر Targeted Subsidy دی جائے گی۔ مستحق افراد کے علاج اور امداد کے لیے پاکستان بیت المال کو 4 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔ یونانی ادویات عام طور پر دیہاتی اور کم آمدنی والے افراد استعمال کرتے ہیں جن کی سہولت کے لیے یونانی ادویات پر سیلز ٹیکس کی شرح 1 فیصد کی جارہی ہے۔بجٹ تقریر کے وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ ان درآمدات کی قیمت میں اضافہ افراط زر کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس قیمت میں کمی کرنے کے لیے ہماری حکومت پاکستانی کوئلے کے استعمال اور Solar Energy کو فروغ دینے کے لیے پختہ ارادہ رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات کیے جارہے ہیں: کوئلے سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کو ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ مقامی کوئلہ استعمال کریں۔Raw Material Batteries Solar Panel, Inverter Customs Duty سے استثنیٰ دیا جارہا ہے۔ Energy Refined Petrol Products Crude Oil ضروریات کا بڑا حصہ ہیں۔ ماضی میں کئی بار ملک میں ان مصنوعات کی قلت پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ Supply Chain میں تعطل آیا تھا۔ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے Bonded bulk storage policy for pol productsکا اجراء کیا جا رہا ہے، اس پالیسی کے تحت فارن سپلائر اپنے مالی وسائل سے انٹرنیشنل مارکیٹ سے کروڈ آئل اور POL Productپاکستان درآمد کر کے bonded Bulk Storageمیں ذخیرہ کرے گا، بوقت ضرورت ریفائنری یا آئل مارکیٹنگ کمپنی کو فارن سپلائر سے یہ مصنوعات خریدنے کی اجازت ہو گی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ ملکی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ترقیاتی بجٹ کے ذریعے معیشت کی استعداد کار میں اضافہ بہتر انفراسٹر اکچر کی فراہمی، افرادی ترقی ،Regional Equity اور انویسٹمنٹ میں اضافے جیسے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ اگلے مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1,150 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جبکہ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 1,559 ارب روپے ہے۔ اس طرح قومی سطح پر ترقیاتی پروگرام کا حجم 2,709 ارب روپے ہوگا۔ یہ رقم GDP کا صرف 2.6 فیصد ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے پچھلے دور میں ترقیاتی اخراجات کا حجم GDP کے تقریباً 5 فیصد تک پہنچا دیا تھا۔ پچھلے چار سال کی تباہی و بربادی کی وجہ سے ترقیاتی وسائل ا?دھے رہ گئے ہیں۔ دوسری جانب ملک کی ترقیاتی ضروریات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے ترقیاتی اخراجات ملک کی اہم ترین ترجیحات پر خرچ کیے جائیں۔ 80 فیصد تکمیل والے منصوبوں کو مکمل کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ تاکہ جون 2024 تک ان کی تعمیل کی جاسکے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور جدید ترین انفراسٹرکچر کی فراہمی کے لیے PSDP کا 52 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے۔ انفراسٹرکچر کے شعبے میں ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کے لیے مجوزہ مختص رقم 267 ارب روپے (جو کل حجم کا 28 فیصد ہے)، واٹر سیکٹر کیلئے مختص رقم 100 ارب روپے (11 فیصد) ہے۔ توانائی کے شعبے کیلئے مجوزہ مختص رقم 89 ارب روپے کل مختص رقم کا وفیصد ہے)، فزیکل پلانگ اینڈ ہاو?سنگ (PP&H) کیلئے مجوز? مختص رقم 43 ارب روپے یعنی کل مختص رقم کا 4 فیصد ہے۔پاکستان کے مختلف علاقوں کی متوازن ترقی کیلئے 108 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں، جن میں سے 57 ارب روپے خیبر پختونخواہ کے ضم شدہ اضلاع (NMDS) کیلئے 32.5 ارب روپے AJ&K کیلئے اور 28.5 ارب روپے گلگت بلتستان کیلئے رکھے گئے ہیں تاکہ ان علاقوں کی ترقی کو ملک کے دیگر علاقوں کے نزدیک لایا جاسکے۔ SEZS کی تیز رفتار تکمیل کی نگرانی اور CPEC کے تحت مختلف منصوبوں کی بحالی ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی بہتری کے لیے 107 ارب روپے کی رقم مہیا کی گئی ہے، ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 41 ہزار میگا واٹ تک پہنچ چکی ہے، اس میں پن بجلی کا حصہ 25 فیصد ہے، موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ بجلی کی پیداوار میں ملکی وسائل اور ری نیو ایبل انرجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے، تاکہ ملکی درا?مدات کو کم کیا جا سکے اور بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی لائی جا سکے، اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی ترسیل کے نظام میں بہتری لانا بھی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے، پی ایس ڈی پی میں زیادہ تر توجہ ترسیلی نظام کی بہتری، ری نیو ایبل انرجی اور ا?بی وسائل کے استعمال میں اضافہ پر توجہ مرکز کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں کوئلے سے چلنے والے جامشورو پلانٹ (1200 میگا واٹ) کی تکمیل کے لیے اگلے مالی سال میں 12 ارب روپے کی مہیا کی جائے گی، پاکستان اور تاجکستان کے درمیان 500 کے وی ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے 16 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، این ٹی ڈی سی کے موجودہ گرڈ سٹیشنز کی استعداد میں بہتری لانے کے لیے پانچ ارب روپے، سکی کناری، کوہال اور ماحل ہائیڈرو پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کے لیے 13 ارب روپے اور داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کے لیے 6 ارب روپے فراہمی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پچھلے سال مہمند ڈیم کی تکمیل کے لیے 12 ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں، اگلے مالی سال میں بھی اس منصوبے کے لیے 10 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے، اسی طرح 2160 میگا واٹ استعداد کے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر تقریباً 59 ارب روپے کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی، دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے بیس ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، دیگر اہم منصوبوں میں 969 میگا واٹ کے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 4 ارب روپے 80 کروڑ روپے، تربیلا ہائیڈرو پاور کی استعداد میں اضافے کے لیے چار ارب 45 کروڑ روپے اور وارسک ہائیڈرو الیکٹرک پاور سٹیشن کی بحالی کے لیے دو ارب 60 کروڑ روپے کی رقم فراہم کی جائے گی، ان منصوبوں سے ز رعی شعبہ کے لیے پانی کی فراہمی اور سستی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔اور اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے کے فور گریٹر واٹر سپلائی سکیم کے لیے بھی 17 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مہیا کی جائے گی۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاق کے محاصل 4 ہزار 689 ارب روپے ہوں گے، ایگرو انڈسٹری کو رعایتی قرضوں کی فراہمی کیلئے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، کھاد پر سبسڈی کیلئے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، کل اخراجات کا تخمینہ 11 ہزار 90 ارب روپے ہے، ٹیکسٹائل، لیدر، مصنوعات کے ٹیئرون ریٹیلرز پر جی ایس ٹی کی شرح 12سے 15 فیصد کر دی ہے، فارن کرنسی آئوٹ فلو کیلئے فائلر پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح ایک سے بڑھا کر 5 فیصد کی جا رہی ہے۔اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سول حکومت کے مجموعی اخراجات 553 ارب، پنشن پر 654 ارب خرچ ہوں گے، دفاع پر کم و بیش 1510 ارب روپے خرچ ہوں گے، افراط زر کی شرح 21 فیصد تک ہو گی، پاکستان میں کم و بیش 3 ہزار غیر ملکی گھریلو خادم کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ آئی ٹی ایکسپوٹرز کو 50 ہزار ڈالر کا ہارڈ ویئر ڈیوٹی فری منگوانے کی اجازت ہو گی، آئی ٹی برآمدات پر انکم ٹیکس کی رعایتی شرح 0.25 فیصد 3 سال برقرار رہے گی، آئی ٹی برآمدات بڑھانے کیلئے انکم ٹیکس کی کم شرح کو 2026 تک برقرار رکھا جا رہا ہے، 50 ہزار ڈالر تک آئی ٹی درآمدات کو ٹیکس چھوٹ دی جا رہی ہے، آئی ٹی شعبہ کو چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعت کا درجہ دیا جا رہا ہے، آئی ٹی کے نئے کاروبار کیلئے 5 ارب روپے کا فنڈ قائم کیا گیا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ٹی میں فی لانسرز شعبے میں پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، اگلے مالی سال برآمدات کا ہدف 30 ارب ڈالر، ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب ڈالر ہے، صوبوں کا حصہ 5 ہزار 276 روپے ہو گا، وفاقی نان ٹیکس محصولات 2 ہزار 963 ارب روپے ہوں گے، لیپ ٹاپ سکیم کیلئے 10ارب روپے مختص ہے، وفاقی حکومت کی کل ا?مدن 6 ہزار 887 ارب روپے ہو گی، وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 14ہزار460 ارب روپے ہے، پی ایس ڈی پی کی مد میں اخراجات 567 ارب تک رہنے کا امکان ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ ورکنگ جرنلسٹس کیلئے پہلی بار ہیلتھ انشورنس کا اعلان کیا جا رہا ہے، سود کی ادائیگی پر 7 ہزار 303 ارب روپے خرچ ہوں گے، پی ایس ڈی پی کیلئے 950 ارب روپے کا بجٹ مختص کر دیا، ترسیلات زر ہماری ایکسپورٹ کے 90 فیصد کے برابر ہے، ملکی دفاع کیلئے ایک ہزار804 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، معدنیات برآمد کیلئے مقامی خریداری پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ دی جا رہی ہے، تمام لسٹڈ کمپنیز پر 1 اعشاریہ 2 فیصد ٹیکس کو کم کر کے ایک فیصد کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دالوں اور چینی پر ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائیگی، ٹیکسٹائل انڈسٹری کے فروغ کیلئے مقامی طور پر تیار نہ ہونے والے دھاگے پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی، اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ترسیلات زر کے ذریعے غیرمنقولہ جائیداد خریدنے پر 2 فیصد ٹیکس ختم کر دیا، سیکنڈ ہینڈ کپڑوں پر ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے، بجلی ، گیس اور دیگر شعبوں کیلئے ایک ہزار 74 ارب روپے مختص کیے ہیں، لیپ ٹاپ سکیم کے تحت طلبہ کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ تقسم کریں گے۔وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ 50 ہزار آئی ٹی گریجوایٹس کو تربیت دی جائے گی، ترقیاتی فنڈز کیلئے 1150 ارب روپے رکھے گئے ہیں، تعمیرات، زراعت اور ایس ایم ایز کو قرض دینے والے بینکوں پر ٹیکس شرح 39 سے 20 فیصد کیا جا رہا ہے، ۔اسحاق ڈار نے کہا کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری راغب کرنے اور جدید ترین انفرااسٹرکچر کیلئے پی ایس ڈی پی کا 52 فیصد مختص کیا ہے، تعلیم بشمول اعلیٰ تعلیم کیلئے 82 ارب روپے رکھے گئے ہیں، صحت کے شعبے کیلئے 26 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، مجموعی ترقیاتی پروگرام کیلئے 2709 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جام شورو پاور پلانٹ کی تکمیل کیلئے 12 ارب روپے مہیا کیے جائیں گے، نوجوانوں کیلئے نئے کاروبار شروع کرنے پر ٹیکس میں 50 فیصد چھوٹ دی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ گلگت بلتستان کی ترقی کیلئے 26 ارب 50 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، سماجی شعبے کی ترقی کیلئے 244 ارب روپے رکھے گئے ہیں، داسو ہائیڈر و پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کیلئے 6 ارب روپے فراہمی کی تجویز ہے۔وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد، گریڈ 17 سے 22 تک ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا جائے گا، پنشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافہ کیا جائے گا، اسلام آباد میں کم سے کم اجرت کو 25 ہزار سے بڑھا کر 32 ہزار روپے کیا جا رہا ہے، ای اوبی آئی کی پنشن کو ساڑھے 8 ہزار سے 10 ہزار کیا جا رہا ہے۔اپنی تقریر کے دوران وزیر خزانہ نے بتایا کہ اس سال کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا اور حکومت کی کوشش ہے کہ ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے، کوشش یہ ہے کہ روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں، کاروبار میں آسانیاں لائی جائیں، صنعتوں کی حوصلہ افزائی ہو، برآمدات میں اضافہ کیا جائے، جس سے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ سکیں۔انہوں نے کہا کہ زیادہ تر معاشی سرگرمیوں سپلائی آف گڈز، Execution of contracts اور Provision of services سے متعلق ہوتی ہیں، ان ٹرانزیکشن سے حکومت کو ہونے والی آمدنی میں اضافہ کے لیے ایک فیصد ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز ہے، اس کا اطلاق انفرادی، اے او پی اور کمپنیز پر ہو گا، مزید برآں جن سروسز پر Concessionary Taxپر عائد ہوتا ہے، ان کی شرح میں بھی ایک فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے، اس تجویز کا اطلاق چاول، کپاس کے بیج، خوردنی تیل، پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا اور سپورٹس پرسنز پر نہیں ہو گا۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ امیروں پر ٹیکس عا ئد کرنا پاکستان کی ٹیکسیشن پالیسی کا رہنما اصول ہے، اس لیے زیادہ آمدن والے افراد پر ٹیکس سال 2022ء￿ میں سپر ٹیکس عائد کیا گیا تھا، اس کی شرح میں بتدریج ایک سے چار فیصد تک اضافہ ہوتا تھا اس کے علاوہ زیادہ آمدن والے پندرہ بزنسز اور شعبوں میں دس فیصد کی شرح سے سپر ٹیکس عائد کیا گیا تھا، سپر ٹیکس کو پروگریسیو ٹیکسیشن میں تبدیل کرنے کے لیے اس کے ٹیکس ریٹس کو بتدریج بڑھانے کی تجویز ہے۔وفاقی وزیرخرانہ نے ضمنی بجٹ2021-22ء اور2022-23ء ایوان میں پیش کیا۔وزیرخزانہ نے مطالبات زر2023-24ء بھی پیش کردئے۔بجٹ تقریر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس 12جون 2023ء سہ پہر 4بجے تک ملتوی کردیاگی

Leave feedback about this

  • Rating