چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب انتخابات حکمنامے سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست کی سماعت کے موقع پر ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین ایک خوبصورت دستاویز ہے،ہم سب آئین پر متحد و متفق ہیں، ہم اس پہلو کو دیکھ رہے ہیں کہ اب انتخابات کے معاملے کا فیصلہ لارجر بنچ نے کرنا ہے،یہ معاملہ قومی مسلے سے جڑا ہوا ہے،14 مئی سے متعلق فیصلہ واپس نہیں لیا جاسکتا،90 روز میں انتخابات آئینی تقاضا ہے،وقت گزرچکا، اگرچے 90 روز نہیں پھر بھی ہم نے اس تقاضا کو کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی،الیکشن کمیشن نے ہمیں 8 اکتوبر انتخابات کی تاریخ دء،پھر کہا کہ سانحہ 9 مئی کے بعد حالات تبدیل ہوچکے ہیں،الیکشن کمشن کی صلاحیت ہونی چاہیے کہ جو اور جیسے بھی حالات ہوں وہ الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنائے۔یہ کوئی برینڈ نیو کیس نہیں ہے،یہ پہلے سے ہوئے فیصلہ کے خلاف اپیل ہے،یہاں آئین پر سب متفق ہیں لیکن آئین کے نفاز پر سب کلئیر نہیں ہیں،جو کچھ 9 مئی کو ملک میں ہوا، اس کے بعد اچھی بات یہ ہوئی کہ حکومت اور اداروں نے کہا عدالت میں ہی دلائل دیں گے جو قانونی ہیں،ورنہ یہ تو عدالت کے دروازے کے باہر احتجاج کر رہے تھے،اس احتجاج کا کیا مقصد تھا؟انصاف کی فراہمی تو مولا کریم کا کام ہے،پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس اور ریویو ایکٹ ایک ساتھ سننا چاہتے ہیں،ہمارے پاس نئے نظر ثانی قانون کیخلاف کچھ درخواستیں آئی ہیں،نظر ثانی ایکٹ کے معاملے کو کسی اسٹیج پر دیکھنا ہی ہے، نظر ثانی ایکٹ پر نوٹس کے بعد انتخابات کیس نئے ایکٹ کے تحت یہی بنچ سنے گا۔بدھ کو سپریم کورٹ میں معاملے کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔

Leave feedback about this