حکومت ازخود اختیارات محدود کرے ،موسٹ ویلکم ! چیف جسٹس آف پاکستان

چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے موقع پر ریمارکس دیئے ہیں کہ فل کورٹ سے متعلق درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں لیکن عدالت کو سمجھ آ گئی ہے،اعتراض ہو تو فیصلہ جج نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ مقدمہ سنے یا نہیں،اس کیس میں مستقبل کے لیے تعین کرنا ہے کہ بینچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہہ سکتا ہے،عدالت کو اس حوالے سے مزید معاونت چاہیے،موجودہ کیس آئینی ترامیم کا نہیں ہے،افتخار چوہدری اور جسٹس فائز عیسیٰ کیسز صدارتی ریفرنس پر تھے،ججز پر الزام لگے تو ٹرائل سپریم کورٹ کا ہوتا ہے،معاملہ سنگین نوعیت کا ہونے پر ہی فل کورٹ بنا تھا،دونوں ججز کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیئے،کونسلز کسی اور مقدمے میں فل کورٹ کی مثال ہے تو دیں۔چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان نے دلائل اپنائے ہیں کہ پارلیمانی ریکارڈ کیلئے سپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے،توقع ہے کل تک پارلیمانی کاروائی کا ریکارڈ مل جائے گا اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ افتخار چوہدری کیس سمیت کئی مقدمات فل کورٹ نے سنے؟ چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا بظاہر یہ آپکا مقدمہ نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔اٹارنی جنرل نے پھر کہا عدلیہ کی آزادی کے تمام مقدمات فل کورٹ نے نہیں سنے، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا افتخار چوہدری کیس مختلف نوعیت کا تھا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 بل کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کو فل کورٹ بنانے کی استدعا پر6 ججز صاحبان کی جانب سے تندوتیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا تاہم جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اٹارنی جنرل سے کوئی سوال نہ پوچھا اور 2 گھنٹے کی سماعت کے دوران خاموش رہے ،عدالت عظمی نے اس موقع پر بنچ کے ایک ممبر جج کی عدم دستیابی کے سبب کیس کی سماعت تین ہفتوں تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو آج منگل کوپارلیمانی کاروائی کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان اور قائمہ کمیٹی قانون کا ریکارڈ فوری طور پر سپریم کورٹ کو فراہم کرنے سے انکار کردیا، ریکارڈ فراہمی کا فیصلہ ایوان کی بنائی گئی خصوصی کمیٹی کرے گی، اٹارنی جنرل آفس کو واضح جواب دیدیا گیا

Leave feedback about this

  • Rating