قومی اسمبلی: سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ کے حکم نامے کیخلاف مذمتی قرارداد منظور

چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار میں مزید ترمیم کا بل پیش کیا گیا، ترمیم کے ذریعے اپیل کیلئے 30 کی بجائے 60 دن کا وقت دیا گیا
نیب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کا بل 2023 منظور کرلیا گیا، بل متفقہ طور پر منظور کیا گیا، قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے،وزیر قانون
دیامر بھاشا ڈیم کی رقم قومی خزانے میں جمع کروانے بارے بھی قرار داد منظور ، رقم سیلاب متاثرین کی مدداور بحالی کے لئے استعمال کی جائے، مطالبہ
اسلام آباد(صحافی ۔ پی کے نیوز)قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ کے حکم نامے کیخلاف مذمتی قرارداد منظور کرلی۔قرار داد میں کہا کہ سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ کا حکم نامہ آئین اور قانون سے متصادم ہے۔قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ کے گزشتہ روز کے حکم نامے کو مسترد کردیا۔قومی اسمبلی میں آرٹیکل 184/3 (چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار) میں مزید ترمیم کا بل پیش کیا گیا، ترمیم کے ذریعے ازخود نوٹس کے فیصلے کیخلاف اپیل کیلئے 30 کی بجائے 60 دن کا وقت دیا گیا ہے۔اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے معمول کا ایجنڈا معطل کرنے کی تحریک پیش کی، ایوان نے تحریک منظور کرلی۔مجموعہ ضابطہ فوجداری 1908 میں مزید ترمیم کے بل پر رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی، رپورٹ چیئرمین قائمہ کمیٹی قانون و انصاف چوہدری محمد بشیر ورک نے پیش کی۔قومی اسمبلی میں نیب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کا بل 2023 پیش کیا گیا، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کا بل ایوان میں پیش کیا، مجموعہ ضابطہ فوجداری 1908 میں مزید ترمیم کے بل منظور کیے گئے، نیب آرڈیننس1999 میں مزید ترمیم کا بل 2023 منظور کرلیا گیا، بل متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔وزیر قانون نے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، ایوان نے کبھی بھی کسی ادارے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کی۔قومی اسمبلی نے جمعہ کو پارلیمان کی قانون سازی کے اختیارات سلب کرنے کے خلاف اور دیامر بھاشا ڈیم کی رقم قومی خزانے میں جمع کروانے اور اسے سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے استعمال کرنے کے حوالے سے دو الگ الگ قراردادوںکی متفقہ طور پرمنظوری دے دی ہے ۔ پارلیمنٹ کی بالادستی اور اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے پارلیمنٹ کے اختیارات سلب کرنے کیخلاف قرارداد پیپلز پارٹی کے علی موسیٰ گیلانی نے پیش کی ۔ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان پارلیمان کے قانون سازی کا مسلمہ دستوری اختیار سلب کرنے کی سپریم کورٹ آف پاکستان کی جارحانہ کوشش کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں واضح کرتا ہے کہ یہ اختیار سلب کیاجاسکتا اور نہ ہی اس میں مداخلت کی جاسکتی ہے۔ ایوان افسوس کا اظہار کرتاہے کہ 1973 کے آئین کے نفاذ کے 50 سال مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی تقریبات کے دوران ریاست کے ایک عضو (Organ of the State) نے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جو خود آئین کے اندر ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔ آئین میں ریاست کے اختیارات تین اداروں مقننہ (Legislature)، انتظامیہ (Executive) اور عدلیہ (Judiciary)میں منقسم ہیں اور کوئی ادارہ دوسرے کے امور میں مداخلت کا مجاز نہیں ہے۔

Leave feedback about this

  • Rating