(جس ضلع میں زیادہ مسئلہ ہے وہاں الیکشن مؤخر ہوسکتے ہیں)
الیکشن کی تاریخ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہوسکتی؟، چیف جسٹس
اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز 30 اپریل کو پورے ہورہے ہیں،90 دن سے کم سے کم آگے کی تاریخ 28 مئی کیسے دی گئی؟، جسٹس منیب
اپنے اختلافی نوٹ پر قائم ہوں، انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس مسترد کردیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ایجنسیوں نے دہشت گردی کے خدشات سے متعلق رپورٹس دی ہیں، جسٹس جمال مندوخیل
آرٹیکل 218 کی ذمہ داری کسی بھی قانون سے بڑھ کر ہے، انتخابات کیلئے سازگار ماحول کا بھی آئین میں ذکر ہے، آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن 90 روز میں ہونا ہیں، وکیل الیکشن کمیشن ،مسئلہ فنڈز کی دستیابی کا ہے، جسٹس عمر عطاء بندیال
اسلام آباد(صحافی ۔پی کے نیوز)پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت آج صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپنے اختلافی نوٹ پر قائم ہوں، انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس مسترد کردیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ایجنسیوں نے دہشت گردی کے خدشات سے متعلق رپورٹس دی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دہشت گردی کا مسئلہ 20 سال سے ہے، اس کے باوجود انتخابات ہوتے رہے ہیں، جس ضلع میں زیادہ مسئلہ ہے وہاں الیکشن مؤخر ہوسکتے ہیں، 8 اکتوبر کوئی جادوئی تاریخ ہے جو اس دن سب ٹھیک ہوجائے گا، 8 اکتوبر کی جگہ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہوسکتی؟۔چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے التواء سے متعلق کیس کی سماعت کا آغاز ہوگیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میڈیا میں جو کچھ نشر ہوا اس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، اپنے اختلافی نوٹ پر قائم ہوں، ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ 3-4 سے ہے، انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس مسترد کردیا گیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ اکثریتی ججز کے فیصلے کے مطابق انتخابات کا حکم نہیں دیا گیا، اندرونی معاملہ صرف انتظامی امور کو قرار دیا تھا۔جسٹس جمال نے کہا کہ چار ججز نے پی ٹی آٸی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ چار ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دا کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف کورٹ نہیں تھا تو صدر نے تاریخ کیسے دی؟، جب آرڈر آف کورٹ نہیں تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟۔پیپلزپارٹی کے وکیل فاررق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ کیس میں پارٹی بننے کی درخواست دائر کردی ہے۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ اپنا مؤقف پیش کرنا چاہتے ہیں، آپ کی درخواست پی ڈی ایم کی طرف سے ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پی پی پی تو پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے الیکشن کمیشن کے وکیل کو سنیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے عرفان قادر ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوگئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کی دستاویز کب آئی؟ آپ ایک وکیل کی جگہ پر آرہے ہیں۔عرفان قادر نے کہا کہ اگر آپ نے شرجیل سواتی کو سننا ہے تو سن لیں، آپ اپنی مرضی کے وکیل کو سن لیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس کیس کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ عرفان قادر نے کہا کہ صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ عدالت مجھے سننا چاہتی ہے یا نہیں؟، بینچ کہہ دے کہ الیکشن کمیشن کی نمائندگی نہ کروں تو چلا جاؤں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے گزشتہ روز حامد علی شاہ اور سجیل سواتی آئے تھے۔ جس پر عرفان قادر نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر میں چلا جاتا ہوں، یہ کہتے ہوئے عرفان قادر کمرہ عدالت سے چلے گئے۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ الیکشن کمیشن نے کس حکم کے تحت فیصلے پر عملدرآمد کیا؟۔ سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر سے رجوع کیا، صدر مملکت نے 30 اپریل کی تاریخ دی، تاریخ مقرر کرنے کے بعد شیڈول جاری اور تیاریاں شروع کیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ آرٹیکل 218 کی ذمہ داری کسی بھی قانون سے بڑھ کر ہے، انتخابات کیلئے سازگار ماحول کا بھی آئین میں ذکر ہے، آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن 90 روز میں ہونا ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اچھی تیاری کی ہے۔سجیل سوات کا مزید کہنا تھا کہ عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ تین دو سے ہے، 2-3 والے فیصلے پر پانچ ججز کے دستخط ہیں، فیصلے کا پیراگراف 14 اور ابتدائی سطریں پڑھ کرعمل کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا آپ نے مختصر حکم نامہ دیکھا تھا، کیا مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ فیصلہ چار تین کا ہے؟۔ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ یکم مارچ کے اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ فیصلہ چار تین کا ہے، اختلاف رائے جج کا حق ہے، اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کھلی عدالت میں 5 ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلے پر دستخط کئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا، مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے، واضح لکھا کہ جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہر کے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہوگئے۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس مین کہا کہ جو معاملہ ہمارے چیمبر کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس نکتے پر اپنے دلائل دیں گے۔جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا مؤقف ہے؟۔ سجیل سواتی نے بتایا کہ 3-4 کے فیصلے پر الیکشن کمیشن سے ہدایات نہیں لیں۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صاف شفاف انتخابات کیلئے کوششیں کیں، ای سی پی نے سیکشن 57 کے تحت الیکشن کی تاریخیں تجویز کیں، 3 مارچ کو عدالتی فیصلہ موصول ہوا، الیکشن کمیشن نے اپنی سمجھ سے فیصلے پر عملدرآمد شروع کیا۔ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ووٹ کے حق اور شہریوں کی سیکیورٹی بھی دیکھنا ہے، صدر کی طرف سے تاریخ ملنے پر شیڈول جاری کیا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے 22 مارچ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے، آپ نے 22 مارچ کا آرڈر کب جاری کیا؟۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرڈر 22 مارچ کی شام کو جاری کیا تھا، جب آرڈر جاری کیا تو کاغذات نامزدگیاں موصول ہو چکے تھے، آرڈر جاری ہونے تک شیڈول کے چند مراحل مکمل ہوچکے تھے۔انہوں نے بتایا کہ فوج نے الیکشن کمیشن کو جوان دینے سے انکار کیا، آئین کا آرٹیکل 17 پُر امن انتخابات کی بات کرتا ہے، آئین کے مطابق انتخابات صاف شفاف پُرامن سازگار ماحول میں ہونے چاہئیں، الیکشن کمیشن نے فوج، رینجرز اور ایف سی کو انتخابی سیکیورٹی کیلئے خط لکھے۔سجیل سوات نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو خفیہ رپورٹس دیں، عدالت کہے گی تو خفیہ رپورٹس بھی دکھا دیں گے، بھکر اور میانوالی میں ٹی ٹی پی، سندھو دیش، کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہر کی گئی۔وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ الیکشن کیلئے 4 لاکھ 12 ہزار کی نفری مانگی گئی، 2 لاکھ 97 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ 8 فروری کے لیٹرز پر انحصار کر رہے ہیں، عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا تھا، کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہیں؟ دوسری طرف کہتے ہیں عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ نہیں سکتے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ اکتوبر میں الیکشن کرانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی؟۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ جسٹس منیب اختر کے سوالات نوٹ کر لیں اور بھی بہت سے سوالات ہیں، آپ دلائل دیں پھر ان سوالوں کے جواب دیجئے گا۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ نے بھی 8 فروری کے خط میں خراب امن و امان کا ذکر کیا، وزارت خزانہ نے بتایا کہ موجودہ مالی سال میں الیکشن کیلئے فنڈز نہیں دے سکتے، سیکریٹری خزانہ نے بتایا 20 ارب روپے جاری کرنا ناممکن ہوگا۔جسٹس جمال نے پوچھا کہ کیا الیکشن کیلئے قومی اسمبلی نے فنڈز کی منظور دی ہوئی ہے؟، جس پر سجیل سواتی نے کہا کہ اس بات کا تفصیل سے جواب وزارت خزانہ ہی دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن تو ہر صورت 2023ء میں ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023ء الیکشن کیلئے بجٹ نہیں رکھا گیا تھا؟۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات کیلئے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، قبل از وقت اسمبلی تحلیل ہوئی اس کا علم نہیں تھا۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے پوچھا کہ اگر انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں تو کتنا خرچ ہوگا؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملک بھر میں ایک ہی دفعہ انتخابات پر 47 ارب روپے خرچ ہوں گے، انتخابات الگ الگ ہوں تو 20 ارب روپے اضافی خرچ ہوں گے۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اسپیشل سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ سیاسی شخصیات کو سیکیورٹی خطرات ہیں، وزارت داخلہ کے مطابق سیکیورٹی خطرات الیکشن مہم کے دوران بھی ہوں گے، وزارت داخلہ نے عمران خان پر حملے کا بھی حوالہ دیا۔سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو بتایا گیا کہ فوج کے بغیر انتخابات کی سیکیورٹی ناممکن ہوگی، اسپیشل سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ان حالات میں پُرامن انتخابات نہیں ہوسکتے، سیکٹر کمانڈر نے بتایا کے پی میں کالعدم تنظیموں نے متوازی حکومتیں بنا رکھی ہیں، خفیہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ مختلف دہشتگرد تنظیمیں متحرک ہیں، کے پی میں 2023ء میں سیکیورٹی کے 443 تھریٹس موصول ہوئے، کے پی میں رواں سال دہشت گردی کے 80 واقعات اور 170 شہادتیں ہوئیں، رپورٹس کے مطابق ان خطرات سے نکلنے میں 6 سے 7 ماہ لگیں گے، رپورٹس کے مطابق عوام میں عدم تحفظ کا تاثر بھی زیادہ ہے، خیبرپختونخوا کے 80 فیصد علاقوں میں سیکیورٹی خطرات ہیں۔جسٹس جمال نے پوچھا کہ کیا کوئی طریقہ ہے الیکشن کمیشن ان رپورٹس کی تصدیق کرا سکے؟۔ سجیل سواتی نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میڈیا پر رپورٹ ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دہشت گردی کا ایشو تو ہے۔جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ ملک میں 20 سال سے دہشت گردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں، 90ء کی دہائی میں 3 دفعہ الیکشن ہوئے، 90ء کی دہائی میں فرقہ واریت اور دہشت گردی عروج پر تھی، 58 ٹو بی کے ذریعے ہر 3 سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ صدر مملکت کو یہ حقائق بتائے بغیر آپ نے تاریخیں تجویز کردی؟۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ صدر مملکت نے تاریخ کی تبدیلی پر الیکشن کمیشن کو خط نہیں لکھا، صدر مملکت نے تاریخ کی تبدیلی پر وزیراعظم کو خط لکھ دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب میں دہشت گردی کے 5 واقعات ہوئے، آخری واقعہ سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ تھا۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ اگر ادارے معاونت فراہم کریں تو کیا آپ الیکشن کروائیں گے؟، بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا مقدمہ خطوط پر ہے، الیکشن کمیشن کا مسئلہ فنڈز کی دستیابی کا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے نے اپنے دلائل میں کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا نے ابھی تک انتخابات کی تاریخ نہیں دی۔ جسٹس منیب نے پوچھا نگراں حکومت نے گورنر کو تاریخ دینے کا کیوں نہیں کہا؟۔ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے بتایا کہ گورنر کے پی نے 8 اکتوبر کی تاریخ دی ہے، گورنر کا خط کل موصول ہوا ہے، ہدایات کیلئے وقت دیں۔جسٹس منیب نے پوچھا کہ گورنر کے پی نے 8 اکتوبر کی تاریخ کس بنیاد پر دی ہے؟، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز 30 اپریل کو پورے ہورہے ہیں،90 دن سے کم سے کم آگے کی تاریخ 28 مئی کیسے دی گئی؟۔ وکیل نے کہا کہ گورنر کے پی کے سے ہدایات لے کر آگاہ کروں گا۔ جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ پہلے ہی حکمنامے میں کہا تھا کہ گورنر تاریخ نہ دے کر آئینی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے التواء سے متعلق کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی۔

Leave feedback about this