تحریک انصاف اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملکی حالات کو بہتر کیا جائے،چیف جسٹس

چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ کی پنجاب ، کے پی الیکشن تاخیر کیس کی سماعت
جمہوریت کیلئے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، اس کے بغیر جمہوریت نہیںچل سکتی،سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے،چیف جسٹس آف پاکستان
جمہوریت کیلئے انتخابات ضروری ہیں،اٹارنی جنرل تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں،سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے،لوگ آٹے کیلئے لائنوں میں لگے ہوئے ہیںانتخابات کرانے کیلئے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے، سماعت کے دوران چیف جسٹس کے ریمارکس
سپریم کورٹ کے دو ججز نے پہلے فیصلہ دیا،عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی،عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، اٹارنی جنرل آف پاکستان
عدالتی فیصلہ پر عمل ہو چکا ہے،صدر مملکت کی دی گئی تاریخ پر الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا،جسٹس اعجاز الاحسن
یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے ،یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے،یہ بتائیں کہ کیا 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے؟کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل
ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے، انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو یہ بحران مزید بڑھے گا،پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل
کیس کی سماعت بدھ 29 مارچ دن ساڑھے گیارہ بجے تک کیلئے ملتوی کر دی گئی
اسلام آباد(صحافی ۔ پی کے نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب،کے پی الیکشن تاخیر کیس میںریمارکس دیئے کہ جمہوریت کیلئے قانون کی حکمرانی لازمی ہے،قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی،سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے،جمہوریت کیلئے انتخابات ضروری ہیں،اٹارنی جنرل تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں،سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے،اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے،لوگ آٹے کیلئے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں،تحریک انصاف اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملکی حالات کو بہتر کیا جائے،تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے،اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے،انتخابات کرانے کیلئے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے،الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے،بیس ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے،حکومت اخراجات کم کر کے بیس ارب نکال سکتی ہے۔چیف جسٹس نے اس موقع پر سوال اٹھائے کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کا تعین کرنے کا اختیار ہے،کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کر سکتا ہے،الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا،کارروئی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے،سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں،اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی،ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے،معاشی بحران کو نظرانداز نہیںکیا جا سکتا،بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے،پانچ فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے،خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے،پنجاب میں اب تک صرف 61 آپریشن ہوئے،سندھ میں 367 جبکہ خیبرپختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے،پنجاب کی صورتحال خیبرپختونخوا سے مختلف ہے،ترکی زلزلہ متاثرہ علاقوں کے علاؤہ کر جگہ الیکشن ہو رہے ہیں،فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں،کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جاسکتا،دہشتگردی کا مسئلے نوے کی دہائی سے ہے،کیا نوے کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے،کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئی،پیپلزپارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا،ان تمام حالات کے باوجود انتخابات ہوتے رہے ہیں،دوسری جنگ عظیم میں بھی ا نتخابات ہوئے تھے،الیکشن کمیشن وہ ہی وجہ بتا سکتا ہے جو اس کے حکم لکھی ہوئی یے،مردم شماری کے بعد چارہ ماہ حلقہ بندی میں بھی لگتے ہیں،2017 سے ایک سیاسی جماعت مردم شماری پر اعتراض کر رہی ہے،عوام کی نمائندگی ہی شفافیت ہونی چاہیے ،پہلی بار عدالت الیکشن ملتوی کرنے کی وجوہات کا جائزہ لے رہی ہے،اصل صورتحال یہ ہے کہ اتنے لمبے عرصے کیلئے الیکشن ملتوی کیسے کئے جاسکتے ہیں ،بینظیر بھٹو کی شہادت پر الیکشن صرف چالیس دن آگے ہوئے تھے،احتجاج کے باعث الیکشن کمیشن کے دفاتر نظر آتش کردئے گئے تھے،2013 میں ملک بھر میں سانحہ پر احتجاج ہورہے تھے،الیکشن کیلئے سیاسی پختگی کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ جلدی بازی میں لکھا گیا،الیکشن کمیشن کے پاس کوئی اتھارٹی یا قانون نہیں تھی کے الیکشن تاریخ کی توسیع کرتی۔منگل کو عدالت عظمی میں معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر عثمان منصور اعوان نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کے دو ججز نے پہلے فیصلہ دیا،عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی،عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے، موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عملدرآمد کی ہے۔چیف جسٹس نے اس موقع پر اٹارنی جنرل کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ اس وقت سوال فیصلے کا نہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے،بنچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے کیلئے بیٹھے ہیں،اٹارنی جنرل کا انحصار تکنیکی نکتے پر ہے،ان کے آغاز سے مایوس ہوا ہوں،سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا،جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلہ پر عمل ہو چکا ہے،صدر مملکت کی دی گئی تاریخ پر الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا،سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدر مملکت کی تاریخ کو تبدیل کر دے، الیکشن کمیشن کے پاس 90دن کا اندر شیڈول ایڈ جسٹ کرنے کا اختیار ہے،الیکشن کمیشن بظاہر 90 دن سے تاخیر نہیں کرسکتا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے ،یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے،یہ بتائیں کہ کیا 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے؟کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے؟ 90 دن اب بھی گزرگئے ہیں،آئین کی ہمارے ملک میں کوئی پرواہ نہیں کرتا،الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں،یہاں سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریح کون بڑھائے گا؟سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے،اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہیے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے۔ کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں، وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے دلائل اپنائے کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے، انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو یہ بحران مزید بڑھے گا، چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپکی اعلی قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے،پی ٹی آئی کو پہل کرنی ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے،ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے،معاشی حالات دیکھیں آٹے کیلئے لائنیں لگی ہوئی ہیں،آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں۔بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم اور وزیراعلی منتخب نمائندے ہوتے ہیں،تحریک عدم اعتماد آجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی،وزیر اعظم اور وزیراعلی کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے،الیکشن کمیشن نے پنجاب کی حد تک عدالتی فیصلہ پر عمل کیا،الیکشن کمیشن نے اپنے آرڈر میں آئین کے دو ارٹیکلز کا سہارا لیا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا آئینی ذ مہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں،اگر الیکشن کمیشن 8اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاالیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کے لیے صدر سے رجوع کرسکتا تھا،تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں،وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی کمیشن رجوع کرسکتا ہے، بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے،الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے موقف لے کر فیصلہ لکھ دیا،عدالت کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا،انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو ا7رٹیکل 5 کا اطلاق ہو گا،ہر ادارہ آئین اور شیخص قانون پر عمل کرنے کا پابند ہے، الیکشن کے مطابق آرٹیکل 254 الیکشن منسوخ کرنے کا اختیار دیتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی،کیا 90 دن بعد کی تاریخ درست تھی؟ صدر نے بھی الیکشن تاریخ 90 دن کے بعد کی دی،آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں ، بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہو سکتا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا،ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ایک ہی دن انتخابات کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے،الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا،الیکشن کمیشن چھ ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو دو سال بھی کر سکے گا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے یہاں آئین خاموش ہے،انہوں نے پوچھا کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیئے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا،سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہو گا،بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہو سکتے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگراں حکومت فنڈز کیسے دے گی، جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا جو مسائل آج ہیں وہ 8 اکتوبر کو کیسے نہیں ہوں گے؟بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کہا فنڈز فراہم نہیں کیے گئے،الیکشن کمیشن نے کبھی فنڈز دینے کی ہدایت نہیں کی تھی، جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر کہا کہ اخبار میں وزیر اعظم کا بیان تھا کہ وفاقی حکومت نے فروری تک 500 ارب ٹیکس جمع کیا،حیرت ہے کہ پانچ سو ارب میں سے بیس ارب نہیں دئیے گئے، بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے حکمنامے کے مطابق سیکرٹری خزانہ نے کہا فنڈز دینا مشکل ہو گا،وزارت خزانہ نے مشکل کہا تھا انکار نہیں کیا تھا، جسٹس منیب اختر اس موقع پر گویا ہوئے کہ سیکرٹری خزانہ نے تو کہا الیکشن کے لیے فنڈز نہ ابھی ہیں نہ آگے ہوں گے،اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں،حکومت کا کوئی سیکرٹری ایسا بیاں کیسے دے سکتا ہے،ٹیکس جمع ہو کر فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں جاتا ہے،ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ فیڈرل کنسولٹیڈ فنڈز پارلیمنٹ کی منظوری سے خرچ ہوتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے پوچھااگر اسمبلی تحلیل ہوجائے تو کیا فنڈز جاری ہی نہیں ہو سکیں گے، فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے،عام روٹین میں نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے،سیکریری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا سیکرٹری خزانہ منظور کردہ بجٹ سے ہٹ کر فنڈز کیسے دے سکتا ہے۔جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ یہ تکنیکی نقطہ ہے کے پیسے کہاں سے آنے ہیں؟الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے کہ جہاں مسئلہ ہو صرف وہاں پولنگ منسوخ ہو سکتی ہے ،ایسا نہیں ہو سکتا کہ پورا الیکشن ملتوی کر دیا جائے،گزشتہ سال چیف الیکشن کمشنر نے بتایا تھا کہ نومبر 2022 میں الیکشن کے لیے تیار ہیں،اب الیکشن کمیشن اچانک کہتا ہے فنڈز نہیں ہیں،فنڈز نہ ہونا الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ نہیں،الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عملہ موجود ہے،سیکورٹی فراہم کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے،سکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا ہے،پولیس نفری کم ہونے کا بہانہ تو ہمیشہ رہے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا الیکشن کمیشن نے وہ اختیار استعمال کیا جو اسکا تھا ہی نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا الیکشن کمیشن ہائیکورٹ سے بھی رجوع کرسکتا تھا۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کا حکم تھا تو معاملہ یہی آنا تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ ہائیکورٹ جانے سے آپکو کیا مسلئہ ہے،آئین واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہائیکورٹ نے کروانا ہے۔جس پر بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایا کہ وقت کی قلت ہے مزید چارہ جوئی میں مزید وقت ضائع نہیں کرسکتے۔معاملہ دو صوبوں کا ہے ایک ہائیکورٹ عمل نہیں کروا سکتی، عوامی مفاد کا معاملہ ہے مناسب ہو گا سپریم کورٹ خود کیس سنے، الیکشن کمیشن اداروں کو ہدایات جاری کر سکتا ہے،ادارے عملدرآمد نہ کریں تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے،الیکشن کمیشن نے عدالت کو کہا تھا وہ تاریخ مقرر نہیں کر سکتے، عدالت فیصلہ کرے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک خوش ہوں گے،قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں،غیر آئنی اقدام کے خلاف عدالت ہی آخری دیوار ہے،آئین کا پہلا اصول اسلام دوسرا جمہوریت ہے،جمہوریت انتخابات سے ہی ہوتی ہے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سماعت میں وقفے کے بعد دلائل اپنائے کہ یہاں صرف پنجاب کی حد تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا گیا ہے،گورنر کے پی کا معاملہ سپریم کورٹ میں الگ سے چیلنج ہے،الیکشن کمیشن کے فیصلے کا دفاع اس کے وکلاء کریں گے،حکومت سے فنڈز اور سیکورٹی کا مطالبہ کیا گیا تھا،پولنگ اسٹیشنز پر فوج تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا ،فنڈز کے حوالے سے کل سیکرٹری خزانہ سے معلومات لے کر تفصیل دوں گا ،آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 170ارب حکومت نے وصول کرنے تھے،اضافی وصولی کے لئے ضمنی بجٹ دیا گیا،جو معلومات ابھی دے رہا ہوں وہ میری سمجھ کے مطابق ہیں،30 جون تک 170 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف ہے،آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ شرح سود میں اضافہ کیا جائے،شرح سود میں اضافے سے مقامی قرضوں میں اضافہ ہوا،اٹھارہوں ترمیم کے بعد وفاقی غریب اور صوبے امیر ہوئے ہیں،معاشی صورتحال سے کل اگاہ کروں گا۔اس موقع پر فواد چوہدری نے اپنی سیٹ سے کھڑے ہو کر عدالت کو بتایا کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی اراکین کو فنڈز دیئے گئے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ہدایت لے کر آگاہ کروں گا،ترقیاتی فنڈ والی بات شاید پانچ ماہ پرانی ہے،مسئلہ آئینی اختیار کا نہیں وسائل کی کمی کا ہے،وزرات دفاع نے کہا سیکورٹی حالات کیوجہ سے فوج فراہم نہیں کرسکتے،ہوسکتا ہے الیکشن کمیشن نے سوچا ہو تمام اسمبلیوں کی مدت اکتوبر میں مکمل ہوجائے گی،1988 میں انتخابات اگست میں ہونے تھے ،جنرل ضیاء کی وفات کے بعد الیکشن نومبر میں ہوئے،قائم مقام صدر نے الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کیا تھا،1988 میں بھی فنڈز کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا،سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے سے خلاء پر کیا تھا،جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر کہا کہ معاملہ ترجیحات کا ہے،لیپ ٹاپ کے لیے دس ارب روپے نکل سکتے ہیں تو الیکشن کے لیے 20 ارب کیوں نہیں،جسٹس منیب اختر نے کہااراکین کو فنڈز دینا عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی ہے۔کیا ہم سمجھیں قوم دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے،کیا یہ پھر بنانا ریپبلک بن گیا ہے، فورسز حکومت کے ماتحت ہوتی ہیں] وہ کیسے کہہ سکتے ہیں ہم نہیں کرسکتے،ڈیوٹی کرنے میں کیامسئلہ ہے؟ ڈیوٹی تو ڈیوٹی ہے، افواج حکومت کے ماتحت ہیں، وہ کیسے سکیورٹی کی فراہمی سے انکار کر سکتے ہیں؟فوج کو الیکشن ڈیوٹی کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ ذمہ داری تو ذمہ داری ہوتی ہے، کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرنا چاہیے تھا ،اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ آئینی اختیار استعمال کرنے میں سوال ہو تو معاملہ عدالت ہی آتا ہے ،اس سوال کا بہتر جواب الیکشن کمیشن کے وکیل دے سکتے ہیں ،2008 میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کی نئی تاریخ خود دی تھی،کسی جماعت نے الیکشن کی نئی تاریخ کو چیلنج نہیں کیا تھا،2013 میں اس وقت کی سیاسی قیادت نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا،ملک کے اس وقت کے حالات اور اب کے حالات میں فرق ہے ،عدالت کو مردم شماری سے بھی آگاہ کروں گا،مردم شماری ابھی بھی جاری ہے،سرکاری عملہ مردم شماری میں مصروف ہے،مردم شماری کے بعد نشستوں کا تناسب بدل جاتا ہے،جس مردم شماری کے نتائج شائع ہو چکے ہوں اس کی بنیاد پر ہی الیکشن ہوتے ہیں،30 اپریل کو مردم شماری مکمل ہونی ہے،حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے ،مردم شماری کا اثر پنجاب اور کے پی کے میں قومی اسمبلی کے الیکشن پر پڑے گا۔بعد ازاں کیس کی سماعت بدھ 29 مارچ دن ساڑھے گیارہ بجے تک کیلئے ملتوی کر دی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave feedback about this

  • Rating