صرف انتخابات چاہتا ہوں ،کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہوں ہیں ، یہ چاہتے ہیں میں ڈس کوالیفائی ہوں جاؤں یا جیل چلا جاؤں اور یہ الیکشن جیت جائیں
کبھی نہ آرمی چیف کو بات کرنے کی دعوت دی نہ شہباز شریف کو،فوجی قیادت تبدیل ہونے سے ہمارے لیے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ سختیاں بڑھ گئی ہیں ،ٖٖٖ غیر ملکی خبر ایجنسی کوانٹرویو
لاہور (صحافی ۔ پی کے نیوز)پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ عوام میرے ساتھ ہیں، بیساکھیوں کی ضرورت نہیں،ہم صرف ملک میں انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں اور اس کے لیے کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں تاہم انھیں بیساکھیوں کی ضرورت نہیں،نگران حکومت کا کام ہوتا ہے انتخابات کروانا، یہ کیسے روک سکتے ہیں ۔ انٹرویو میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’مجھ سے پوچھا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ آپ سے بات کرے تو کیا آپ کریں گے میں نے کہا میں سیاسی آدمی ہوں میں سب سے بات کروں گا،سوائے چوروں کے۔‘عمران حان نے واضح کیا کہ انھوں نے کبھی نہ آرمی چیف کو بات کرنے کی دعوت دی نہ شہباز شریف کو۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کا کہنا تھا کہ ’یہ بیان چل رہے ہے کہ میں آرمی چیف سے بات کرنا چاہتا ہوں تو مجھے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں۔انھوں نے کہا کہ جس جماعت کے ساتھ ملک کے عوام ہوں تو اسے بیساکھیاں درکار نہیں ہوتیں۔عمران خان سے جب پوچھا گیا کہ کیا فوجی قیادت تبدیل ہونے سے ان کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں کوئی فرق آیا تو ان کا کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے کوئی فرق نہیں پڑا۔‘ان کا کہنا تھا ’ہم پر جنرل باجوہ کے دور میں کیسز بنے۔ اس سے پہلے کبھی سینیئر لوگوں پر اتنا حراستی تشدد نہیں ہوا۔‘عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سوچا نیا چیف آئے گا تو تبدیلی آئے گی لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ سختیاں بڑھ گئی ہیں۔‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے 90 دن میں الیکشن کروانے کا حکم دیا۔ صدر نے بھی اعلان کردیا لیکن ’ہم انتخابی ریلی کرتے ہیں تو پولیس آ جاتی ہے۔ گاڑیاں توڑیں گئیں۔ واٹر کینن ہوا۔ لوگوں کو گرفتار کیا۔ ‘عمران خان کا کہنا تھا ’نگران حکومت کا کام ہوتا ہے انتخابات کروانا۔ یہ کیسے روک سکتے ہیں۔ اگر الیکشن کروانا ہیں تو انتخابی مہم اور ریلی کے بغیر الیکشن کیسے ہوتے ہیں؟ ۔الیکشن ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن نے تاریخیں دی ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے اسے حکم دیا ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت الیکشن نہیں کراوانا چاہتی۔ ‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ابھی تک ہر قسم کا بہانہ دیا جا رہا ہے کہ کیوں الیکشن نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ کسی بڑی شخصیت کا قتل کروا دیں گے جیسے بینظیربھٹو کا ہوا۔ ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح الیکشن سے نکلیں۔‘ اس سوال پر کہ اگر الیکشن نہیں ہوتے تو وہ کیا کریں گے؟ ’عمران خان کا کہنا تھا کہ ’یہ توہینِ عدالت ہو گی۔ آئین کہتا ہے، سپریم کورٹ کے جج کہتے ہیں۔ اگر یہ نہیں کروائیں گے تو آئین اور قانون ختم ہو جائے گا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ’یہ چاہتے ہیں میں ڈس کوالیفائی ہوں جاؤں یا جیل چلا جاؤں اور یہ الیکشن جیت جائیں۔ ‘عمران خان کا کہنا تھا کہ ’قوم حکومتی جماعتوں کے خلاف ہو چکی تھی اس لیے میں 2018 کا الیکشن جیتا۔ اب جو مہنگائی ہوئی ہے اب تو یہ جماعتیں بالکل دفن ہو چکی ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہم تو الیکشن چاہتے ہیں صرف بات یہ کرنی تھی کہ عقل نہیں کہتی کہ سارے الیکشن اکٹھے کروا دیں۔ ملک کا بھی فائدہ ہے۔ عوام کو چننے دو کہ وہ کِسے چاہتے ہیں۔ جو حکومت آئے گی وہ مسئلے حل کرے گی۔‘پرویز الٰہی کو پارٹی میں اہم عہدہ دیے جانے کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’وائس چیئرمین پارٹی کی نمبر ٹو قیادت ہوتا ہے۔ پرویز الٰہی نے اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ برداشت کیا، وہ مشکل وقت میں ہمارے ساتھ رہے اس لیے انھیں عزت دینے کے لیے پارٹی کا عہدہ دیا‘۔عمران خان کا اپنی صحت کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’میری ٹانگ میں جو زخم ہیں ان کی صحت یابی سست رفتار ہے۔ ڈاکٹرز نے چلنے اور کھڑے رہنے سے منع کیا تھا لیکن میں بعد میں لاہور اور اسلام آباد عدالت گیا لیکن وہاں سکیورٹی نہیں تھی۔ وزرات داخلہ نے بھی کہا کہ میری جان کو خطرہ ہے مجھے پتا ہے میری جان کو خطرہ ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے وکیل نے کہا سکیورٹی کی ضمانت دیں ورنہ ویڈیو کانفرنس کر لیں۔ جو آج کل ہوتی ہے۔ مجھے پر 70 سے زیادہ کیسز ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف کیسز عجیب نوعیت کے ہیں جو عدالت میں جاتے ہی ختم ہو جائیں گے۔ اپنی گرفتاری سے متعلق ان کا کہنا تھا ’یہ چاہتے ہیں میں انتخابی مہم نہ چلاؤں۔ یہ کپتان کے بغیر میچ کھیلنا چاہتے ہیں۔

Leave feedback about this