جی ایس ٹی ، ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے، سبسڈیز میں کمی، توانائی کی قیمتوں میں ردّوبدل، اور کفایت شعاری مہم سے مالیاتی اور بنیادی خسارے پر قابو پانے میں مدد ملے گی، زری پالیسی کمیٹی
قوزی مہنگائی فروری 2023ء کے دوران شہری باسکٹ میں 17.1 فیصد اور دیہی باسکٹ میں 21.5 فیصد ہوگئی، اگلے چند ماہ میں مہنگائی مزید بڑھے گی ،بعد میں کمی آنا شروع ہوگی، تاہم یہ بتدریج ہوگی،اسٹیٹ بینک
قرضوں کے بوجھ میں 1800 ارب سے زائد کا اضافہ ،ڈالر کی قیمت بڑھنا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر ہے ، معاشی ماہرین ،پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی خبریں بدنیتی پر مبنی افواہیں ہیں،اسحاق ڈار
کراچی، اسلام آباد(صحافی ۔ پی کے نیوز) ڈالر روپے کو روندتے ہوئے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا،ڈالر285کاہو گیا ،شرح سود 20 فیصد،مہنگائی کی شرح 31.5فیصدہو گئی ۔تفصیلات کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبہ پر لبیک کرتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھ کر شرح سود میں 3فیصد اضافہ کردیا ہے ،جس کے بعد شرح سود17سے بڑھکر20فیصد کی سطح پر پہنچ گئی ہے ۔اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز اسٹیٹ بینک کراچی میںمنعقد ہوا،زری پالیسی کمیٹی کے مطابق مہنگائی کے سابقہ خدشات حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں،مہنگائی کی شرح سالانہ بنیاد پر 31.5فیصد کی سطح پر پہنچ چکی ہے ، جبکہ قوزی مہنگائی فروری 2023ء کے دوران شہری باسکٹ میں 17.1 فیصد اور دیہی باسکٹ میں 21.5 فیصد ہوگئی ہے۔زری پالیسی کمیٹی کے مطابق حالیہ تبدیلیوں اور ایکسچینج ریٹ میں کمی کے نتیجے میں مہنگائی کے قریب مدتی منظرنامے میں خاصا بگاڑ پیدا ہوا ہے اور مہنگائی کی توقعات میں مزید اضافہ ہوا ہے، جیسا کہ سرویز کی تازہ ترین لہر سے ظاہر ہوتا ہے،کمیٹی توقع کرتی ہے کہ اگے چند ماہ میں جب ان تبدیلیوں کا اثر سامنے آئے گا تو مہنگائی مزید بڑھے گی اور اس کے بعد اس میں کمی آنا شروع ہوگی، تاہم یہ بتدریج ہوگی۔ اس سال اوسط مہنگائی متوقع طور پر 27 تا29 فیصد کی حدود میں ہوگی جبکہ نومبر 2022ء میں 21 تا23 فیصد کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ اس تناظر میں ایم پی سی نے زور دیا کہ مہنگائی کی توقعات پر قابو پانا بے حد ضروری ہے اور اس کے لیے مضبوط پالیسی ردّعمل چاہیے۔ جنوری 2023ء میں جاری کھاتے کا خسارہ گر کر 242 ملین ڈالر رہ گیا جو مارچ 2021ء سے اب تک پست ترین کی سطح ہے۔مجموعی طور پر جاری کھاتے کا خسارہ،جو جولائی تا جنوری مالی سال 23ء میں 3.8 ارب ڈالر تھا،اب گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 67 فیصد کم ہے۔ اس بہتری سے قطع نظر شیڈول کے مطابق قرضوں کی ادائیگی اورمالکاری رقوم کی آمد میں کمی کے ساتھ بڑھتی ہوئی عالمی شرح سود اور ملکی غیریقینی کی کیفیت زر مبادلہ کے ذخائر اور ایکسچینج ریٹ پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔ ایم پی سی نے نو ٹ کیا کہ زر مبادلہ کے ذخائر پست سطح پر ہیں اور بیرونی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف کے ای ایف ایف کے تحت جاری نویں جائزے کی تکمیل سے بیرونی شعبے کے قریب مدتی چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ مزید برآں، ایم پی سی نے بیرونی کھاتوں پر دباؤ کم کرنے اور دیگر شعبوں کی درآمد کی ضروریات پوری کرنے کے لیے توانائی کی بچت کے اقدامات کی ہنگامی ضرورت پر زور دیا۔زری پالیسی کمیٹی نے امید ظاہر کی کہ جی ایس ٹی اور ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے، سبسڈیز میں کمی، توانائی کی قیمتوں میں ردّوبدل، اور کفایت شعاری کی مہم سمیت حالیہ مالیاتی اقدامات سے توقع ہے کہ بڑھتے ہوئے مالیاتی اور بنیادی خسارے پر قابو پانے میں مدد ملے گی،تاہم کمیٹی کا خیال ہے کہ مالی استحکام کو لاحق خطرات قابو میں ہیں کیونکہ مالی اداروں کے پاس کافی سرمایہ موجود ہے۔ زری پالیسی کمیٹی کے مطابق اس فیصلے نے پیش بینی کی بنیاد پر حقیقی شرح سود کو مثبت حدود میں دھکیل دیا ہے۔ اس سے مہنگائی کی توقعات پر قابو پانے اور مہنگائی کو مالی سال 25ء کے آخر تک 5تا7 فیصد کے وسط مدتی ہدف تک لے جانے میں مدد ملے گی۔کمیٹی نے اپنا آئندہ اجلاس 4اپریل 2023ء کو منعقد کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ علاوہ ازیں کاروباری ہفتے کے چوتھے روز امریکی کرنسی کی قدر میں بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، انٹربینک میں 18 روپے 98 پیسے اضافے کے بعد ڈالر 285 روپے 9 پیسے پر بند ہوا ہے۔انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے قرضوں کے بوجھ میں 1800 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔اوپن مارکیٹ میں بھی امریکی کرنسی کی قیمت میں 9 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر 283 روپے پر پہنچ گیا ہے۔دوسری جانب معاشی ماہرین ڈالر کی قیمت میں اضافے کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ٹاپ لائن سکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو محمد سہیل نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے فنڈنگ ملنے میں تاخیر کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورتحال جنم لے رہی ہے۔سیکرٹری جنرل ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ظفر پراچہ نے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ موجودہ افغان ٹریڈ ریٹ پر ڈالر کی تجارت کرے، دوسرے لفظوں میں انہوں نے پاکستان سے یہ کہا تھا کہ انٹربینک ریٹ یا اوپن مارکیٹ ریٹ کے بجائے ہمارا اصل ریٹ گرے مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہونا چاہیے، وہی اصل ریٹ ہے کیونکہ اس وقت ڈالر کی دستیابی اور تجارت صرف گرے مارکیٹ میں ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے زرمبادلہ پر پابندیاں لگائیں جس کے نتیجے میں تجارت گرے مارکیٹ میں منتقل ہوگئی،

حکومت نے ایکسچینج کمپنیوں پر ڈالر کی خرید و فروخت پر بہت سی پابندیاں عائد کردی ہیں جس کی وجہ سے ڈالر آتا ہے نہ جاتا ہے،
گرے مارکیٹ پر حکومت کے کریک ڈاؤن کے باوجود ایسا ہو رہا ہے، ہمیں اپنی پالیسیاں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، کریک ڈاؤن کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے ملک مخالف عناصر پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی خبریں بدنیتی پر مبنی افواہیں ہیں جو سراسر جھوٹ ہے۔ اپنے ایک ٹوئٹ میں وفاقی وزیر خرانہ نے کہا کہ تمام بیرونی واجبات وقت پر ادا کرنے کے باوجود 4 ہفتے پہلے کے مقابلے میں ایک ارب ڈالر زیادہ ہیں جبکہ غیر ملکی کمرشل بینکوں نے پاکستان کو سہولیات دینا شروع کردی ہیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے مذاکرات مکمل ہونے والے ہیں اور اگلے ہفتے تک آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کے معاہدے پر دستخط کرنے کی توقع ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام اقتصادی اشاریے آہستہ آہستہ درست سمت میں بڑھ رہے ہیں۔
Leave feedback about this