پنجاب، کے پی انتخابات کیس:پی ڈی ایم کا جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہر پر اعتراض،فل کورٹ کی استدعا
بنچ میں شامل فاضل ججز پر اعتراض آنے کے بعد معاملہ کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دیا جانا چاہئے، جسٹس اطہر من اللہ کی رائے
جسٹس مظاہر بینچ سے الگ ہوجائیں، فاروق ایچ نائیک کا اعتراض،کمرہ عدالت میں سماعت کے دوران فاروق نائیک نے ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کا مشترکا بیان عدالت میں پڑھا کر سنایا
صدر کے تاریخ دینے سمیت کئی واقعات کو دیکھا، محسوس ہوا آئین خود اس عدالت کا دروازہ کھٹکٹھا رہا ہے، ہم آپ کو پیر کے روز اس پر مزید سنیں گے، آج اکٹھے ہونے کا مقصد تھا سب کو علم ہو جائے، چیف جسٹس کے ریمارکس
اسلام آباد(صحافی ۔ پی کے نیوز) سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے 2 ججز کے بینچ میں شمولیت پر اعتراض عائد کردیا ۔صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا ( کے پی) میں عام انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ کی طرف سے لئے گئے ازخود نوٹس کی سماعت ہو ئی تو پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی طرف سے میں شامل دو ججز پر اعتراض اٹھا دیا گیا ۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ازخود نوٹس لینا میرا دائر اختیار ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے رائے دی کہ بنچ میں شامل فاضل ججز پر اعتراض سامنے آنے کے بعد معاملہ کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دی جانی چاہیئے۔جمعے کو عدالت عظمی میں از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے کی ۔ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہرمن اللہ شامل ہیں۔جمعے کو سماعت کے آغاز میں پاکستان مسلم لیگ نواز (ن) کے وکیل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ حکم کی کاپی ابھی تک دستیاب نہیں ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج اکٹھے ہونے کا مقصد تھا سب کو علم ہو جائے، مختلف فریقین کے وکلاء کو عدالت میں دیکھ کر خوشی ہوئی۔اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھی نوٹس نہیں ملا، درخواست ہے کہ سب کو نوٹس جاری کیے جائیں، ہمیں بینچ میں شامل 2 ججز جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراض ہے۔ دونوں ججز کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔اس دوران جمعیت علمائے اسلام ف، مسلم لیگ نواز اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے بھی 2 ججز پر اعتراض کیا گیا۔چیف جسٹس آف پاکستان نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج پہلے سب کی حاضری لگائیں گے، پیر کے روز سب کو سنیں گے، سپریم کورٹ بار کسی اور وکیل کے ذریعے اپنی نمائندگی عدالت میں کرے۔ صدر کی جانب سے ان کے سیکریٹری عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔ لگتا ہے ہم نے سب سیاسی پارٹیوں کو نوٹس جاری کیے، سب موجود ہیں۔ عدالت میں گورنر پنجاب کے وکیل مصطفیٰ رمدے پیش ہوئے ہیں۔کمرہ عدالت میں سماعت کے دوران فاروق نائیک نے ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کا مشترکا بیان عدالت میں پڑھا کر سنایا۔ فاروق ایچ نائیک نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے نوٹ کے بعد جسٹس اعجاز، جسٹس مظاہر بینچ سے الگ ہوجائیں، کمرہ عدالت میں مشترکہ بیان پڑھتے ہوئے پی پی کے وکیل نے کہا کہ دونوں ججز ن لیگ اور جے یو آئی کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں، دونوں ججز کے کہنے پر ازخود نوٹس لیا، اس لیے دونوں بینچ سے الگ ہوجائیں، فیئر ٹرائل کے حق کے تحت جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہر بینچ سے الگ ہوجائیں۔اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ معاملہ فل کورٹ سنے؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔ عدالت کے ازخود نوٹس کے 2 پیراگراف پڑھنا چاہتا ہوں، مسٹر ڈوگر کے کیس میں از خود نوٹس لینے کا کہا گیا، جسٹس جمال مندوخیل کا عدالت میں پڑھا گیا بیان الارمنگ ہے، اس کیس میں عوام عدالت کے سامنے نہیں بینچ کے اندر سے معاملہ فل کورٹ کے سامنے رکھنے کی تجویز آگئی ہے۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ معاملہ فل کورٹ سنے؟ فاروق ایچ نائیک نے چیف جسٹس سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔ یہ از خود نوٹس 2ممبر بینچ کی سفارش پر لیا گیا، سوال یہ ہے کیا اس طرح از خود نوٹس لیا جا سکتا ہے؟ واضح کرتا ہوں اس میں کوئی ذاتی وجوہات نہیں ہیں۔جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے جواباً کہا کہ میں سمجھتا ہوں کیوں نہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے، جس پر پی پی وکیل کا کہنا تھا کہ اس وقت میں اس کی گہرائی میں نہیں جاؤں گا۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے، پی پی وکیل کے جواب پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم پہلے کیس میں قابل سماعت ہونے پر بات کریں گے، جس پر فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ اس کیس میں عوام عدالت کے سامنے نہیں آئی۔ انصاف کیلئے بہتر ہوگا یہ معزز ججز بینچ میں نہ بیٹھیں۔ ایک موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے، اپنی جماعتوں سے کہیں، یہ معاملہ عدالت کیوں سنے؟ 90 روز میں الیکشن کا مسئلہ پارلیمان میں حل کیوں نہیں کرتے؟ اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ اپنی جماعت سے اس معاملے پر ہدایت لے لوں گا۔چیف جسٹس نے فاروق نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ازخود نوٹس سے پہلے بھی ہمارے سامنے درخواستیں آچکی تھیں، صدر کے تاریخ دینے سمیت کئی واقعات کو دیکھا، محسوس ہوا آئین خود اس عدالت کا دروازہ کھٹکٹھا رہا ہے، ہم آپ کو پیر کے روز اس پر مزید سنیں گے، پہلی چیز یہ کہ فاروق نائیک نے جو حکم پڑھا وہ 16فروری کا ہے، جب کہ اس معاملے پر از خود نوٹس 22 فروری کو لیا گیا، اسی دوران بہت سنجیدہ معاملات سامنے آئے، ایک صدر کی جانب سے تاریخ دینا اور دوسرا اسپیکرز کی درخواست آنا، عام طور پر شہری انصاف کیلئے عدالت آتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس بار آئین نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔دوران سماعت میں اجازت ملنے پر ن لیگی وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ سیاسی لیڈروں کو عدلیہ کو بدنام کرنے کی اجازت کیوں دی جارہی ہے، یہ بہت ہی سنجیدہ ایشو ہے، جس پر فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ معاملے کا قابل سماعت ہونا سب سے اہم ایشو ہے، سب سے پہلے بینچ کی تشکیل کا معاملہ ہے،فل کورٹ کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ از خود نوٹس لینا چیف جسٹس کا دائرہ اختیار ہے، عدالت درخواستوں میں اٹھائے گئے قانونی سوالات بھی دیکھ رہی ہے۔بعد ازاں عدالت کی جانب سے ازخود نوٹس کی سماعت پیر 27 فروری دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی ہے۔

Leave feedback about this