کفایت شعاری پالیسی منظورو وزرا ء کا تنخواہیں اور تمام مراعات نہ لینے کا اعلان,مہنگائی مزیدبڑھے گی،وزیر اعظم


سرکاری تقریبات میں ڈنر اور لنچ میں سنگل ڈش ہوگی، وفاقی وزراء یوٹیلیٹی بلز اپنی جیب سے ادا کریں گے،وزیر اعظم کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں فیصلہ
ہماری پوری کوشش ہے عام آدمی مہنگائی سے متاثر نہ ہو، اتحادی حکومت ملک کے معاشی حالات ٹھیک کرنے کیلئے دن رات کام کررہی ہے ،منی بجٹ میں کوشش کی گئی ہے کہ عام آدمی پر بوجھ نہ ڈالاجائے
کابینہ اراکین اور سرکاری افسر سفر کے لیے بزنس کلاس بھی استعمال نہیں کریں گے، نئے ٹیکس بڑی کمپنیوں پر لگائے گئے ہیں زیادہ تر ٹیکس پرتعیش چیزوں پر لگائے گئے ہیں ، شہباز شریف کی وفاقی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس
اسلام آباد(صحافی ۔ پی کے نیوز ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے ہمارے معاملات آخری مراحل میں ہیں آئندہ چند روز میں معاہدہ طے پا جائے گا، معاہدے سے مزید مہنگائی ہوگی مگر پھر بھی ہماری پوری کوشش ہے کہ عام آدمی اس سے متاثر نہ ہو، اتحادی حکومت ملک کے معاشی حالات ٹھیک کرنے کیلئے دن رات کام کررہی ہے ،منی بجٹ میں کوشش کی گئی ہے کہ عام آدمی پر بوجھ نہ ڈالاجائے ،منی بجٹ میں نئے ٹیکس بڑی کمپنیوں پر لگائے گئے ہیں زیادہ تر ٹیکس پرتعیش چیزوں پر لگائے گئے ہیں، وفاقی وزرا، وزیر مملکت، معاونین و مشیروں نے تنخواہیں، مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ اجلاس کے بعد وفاقی وزراء و معاونین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے منی بجٹ پاس کیا مگر اس میں لگژری آئٹمز پر ٹیکس لگائے گئے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ اس ملک میں ہمیشہ متوسط طبقے نے قربانی دی ہے 75سالوں میں حکومت کے شاہی اخراجات غریب آدمی نے برداشت کئے ہیں اشرافیہ کے بچوں کا علاج باہر کے ملکوںمیں ہوتا ہے غریب ملک میں علاج کے لئے پریشان ہے غریب کا ایک فرد بیمار ہو تو پورا خاندان متاثر ہوتا ہے ماضی میںغریبوں کونظرانداز اور امیروں کو مراعات دی گئیں قوم اور اپنے اکابرین کے تعاون سے ملک کو مشکلات سے نکالیںگے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کو آگے بڑھانا ہے خوشحالی کی طرف لے کر جانا ہے اس کے لئے اجتماعی کاوشیں بروئے کار لانا ہونگیں اور اس میں ہم کامیاب ہوجائینگے اتحادی حکومت نے کابینہ میں طے کیا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونا چاہیے اس پروگرام میں کچھ مشکلات ضرور آئینگی مگرہم اس مشکل سے بھی نکل آئینگے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ تمام وزراء ، تمام مشیران ، وزراء ممالک اور معاونین خصوصی نے رضا کارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے تمام وزراء گیس ، بجلی پانی اور دیگر بل اپنی جیب سے ادا کرینگے ان کے استعمال میں تمام لگژری گاڑیوں کو نیلام کردیا جائے گا جہاں ضرورت ہوگی وہاں سکیورٹی کیلئے وزراء کو ایک گاڑی دی جائے گی وزراء اندرون بیرونی ملک اکانومی کلاس میں شرکت کرینگے بیرونی دوروںمیں کابینہ کے ارکان فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام نہیںکرینگے وفد بھی ساتھ نہیں جائے گا پرنسپل اکائونٹنگ افسران اپنے بجٹ میں ردوبدل کرینگے جون 2024ء تک تمام پرتعیش اشیاء کی درآمد پر مکمل پابندی ہوگی ہر طرح کی نئی گاڑیوں پر مکمل پابندی ہوگی ۔سرکاری افسران کے پاس موجود سکیورٹی گاڑیاں واپس لی جائینگی خطرے کی نوعیت دیکھتے ہوئے سکیورٹی کی گاڑی فراہم کی جائے گی کابینہ کا کوئی رکن عوامی نمائندہ لگژری گاڑیاں استعمال نہیں کرینگے سفری اخراجات بچانے کیلئے زوم کانفرنس کا انعقاد کیا جائے وفاقی حکومت کے اندر کوئی نیا شعبہ نہیں بنایا جائے گا آئندہ دو سال تک کوئی انتظامی یونٹ نہیں بنایا جائے گا تمام وزارتی اور ادارہ جاتی اخراجات میں 15فیصد کٹوتی کی جائے گی تمام حکومتی تقاریب میں سنگل ڈش کھانے کااستعمال کیا جائے گا اور تمام میٹنگز میںچائے اور بسکٹ فراہم کئے جائینگے غیر ملکی مہمانوں کیلئے یہ پابندی لاگو نہیں ہوگی ان تمام اقدامات پر فوری عملدرآمد کیا جارہا ہے شہرکے وسط میں بڑی رہائش گاہیں ختم کی جارہی ہیں ایک ہزار گز سے زائد کی رہائش گاہیں بھی نیلام کردی جائینگی سرکاری ملازمین کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ نہیں کئے جائینگے سرکاری ملازمین کیلئے ٹائون قائم کئے جائینگے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کیا جائے گا تمام ریکارڈ عوام کے سامنے رکھا جائے گا آج سے توشہ خانہ میں صرف تین سو ڈالر تک کا تحفہ رکھا جاسکے گا عدلیہ اور عسکری اداروں کے تحفے توشہ خانہ میں نہیں آتے توشہ خانہ کے تحفائف کی لاگت تھرڈ پارٹی سے لگوائی جائے گی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کفایت شعاری کا اطلاق صدر ہائوس پر بھی ہوگا اور میری تمام صوبائی وزراء اعلیٰ سے بھی گزارش ہے وہ اپنے اپنے صوبوں میں صوبائی وزراء اور دیگر افسران پر اس کا اطلاق کریں ۔ وزیراعظم نے کہا کہ آٹے کی ملک میں کوئی کمی نہیں ہے وافر تعداد میں گندم ملک میں موجود ہے اس کی سپلائی اور فراہمی کا کام صوبوں کا ہے انہیں اس پر کام کرنا چاہیے صوبوں نے جتنی مانگی ہم نے دے دی ہے ایسی فلور ملوں کی کمی نہیں جو صرف کاغذات میں ہیں اور برسات میں مینڈکوں کی طرح باہر آجاتی ہیں ہم نے اربوں ڈالر خرچ کرکے گندم منگوائی کسی قسم کی کمی ہوتی تو آج میں کٹہرے میں ہوتا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ گرمیوں میں بجلی کی بچت کیلئے سرکاری دفاتر صبح ساڑھے سات بجے کھلیں گے اور مارکیٹیںاور بازار رات کو آٹھ بجے بند کردیئے جائینگے انرجی پلان پر عملدرآمد نہ کرنے والے تاجروں اور شادی ہالز اور ہوٹلوں کی بجلی کاٹ دی جائے گی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ میری چیف جسٹس صاحبان سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس کفایت شعاری پر عملدرآمد کروائیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کرانے کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا ہم آئین اور قانون کے پابند ہیں عدلیہ کا احترام ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایک شخص نوے دن میں تین سو ارب ڈالر واپس لانے کی بات کرتا تھا وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا گزارش ہے کہ آپ توپوں کا رخ اس جعلی رسیدیں پیش کرنے والے کیخلاف موڑ دیں وہ بھی کہتا تھا کہ میں سوئس بینکوں میںرکھے اربوںڈالر واپس لے کر آئوں گا مگر وہ کچھ ثابت نہ کرسکا اور خود خیراتی ادار ے کے پاس کھا گیا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے جو پروگرام شروع کیا ہے انشاء اللہ اس پر عملدرآمد کرواتے ہوئے آگے لے کر جائینگے ۔

وفاقی کابینہ نے کفایت شعاری پالیسی کی منظوری دیدی ۔وفاقی وزرا ء نے تنخواہیں اور تمام مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، وزیر اعظم شہباز شریف کے زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس بدھ کے روز منعقد ہوا ۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کابینہ اراکین اور سرکاری افسر سفر کے لیے بزنس کلاس بھی استعمال نہیں کریں گے۔سرکاری تقریبات میں ڈنر اور لنچ میں سنگل ڈش ہوگی، وفاقی وزراء یوٹیلیٹی بلز اپنی جیب سے ادا کریں گے۔وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے وفاقی وزراء ، مشیروں اور بیوروکریٹس سمیت حکمران طبقے پر زور دیا کہ وہ وسیع چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کی مخلصانہ کوششوں کو ظاہر کرنے کے لیے کفایت شعاری کا مظاہرہ کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب پوری قوم درآمدی مہنگائی، آئی ایم ایف کی شرائط یا سابقہ حکومت کی غفلت کی سزا بھگت رہی ہے ہمیں عوام کو دکھانا ہوگا جو وقت کی اہم ضرورت تھی یہ ہے کفایت شعاری، سادگی اور قربانی کا جذبہ،‘‘ وفاقی کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں کفایت شعاری کے اقدامات کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ 75 سال قبل پاکستان کے قیام کے بعد سے، 1965 یا 1971 کی جنگوں، 1953 اور 2005 کے زلزلوں سے لے کر، غریبوں کو ہمیشہ نقصان اٹھانا پڑا پھر چاہیے وہ 2010 اور 2022 کے سیلاب ہی کیوں نہ ہوں۔انہوں نے کہا کہ غریب عوام کو مہنگائی کا سامنا ہے اور اپنے خاندان کے افراد کا پیٹ پالنے کی مشقت برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اشرافیہ نے بھی مشکل وقت میں غریبوں کا ساتھ دیا لیکن سب نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔انہوں نے کابینہ کے ارکان کو بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام بھی حتمی شکل کو پہنچ رہا ہے جس میں کچھ چیزیں باقی ہیں۔آج ہمیں ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ قوم مخلوط حکومت کی طرف دیکھ رہی ہے جس نے متحد ہو کر ملک کو معاشی ترقی کی پٹڑی پر ڈالنے کے فیصلے کئے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ یہ مشکل چیلنجز سے گزر رہا تھا،‘۔”ذاتی مثال کے ذریعے قیادت” دکھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے وزراء￿ ، مشیروں، معاونین خصوصی اور بیوروکریٹس اور سرکاری افسران پر زور دیا کہ وہ پہلے کفایت شعاری پر عمل کریں اور پھر اشرافیہ اور وسائل والے طبقے سے بھی یہی توقع رکھیں۔انہوں نے کابینہ کے اراکین سے اپیل کی کہ وہ “کھڑے ہو جائیں اور چیلنج کو قبول کریں” تاکہ قوم کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی معلوم ہو سکے کہ پاکستانی قوم بہت مضبوط ہے اور حکومت بغیر کسی رکاوٹ کے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔”ہم اپنے دفاتر اور گھروں کو واپس جانے سے پہلے اس پیغام کو آج ہی پہنچا دینا چاہیے۔ پوری دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ حکومت مثال قائم کر رہی ہے۔ حکومت نے خلوص نیت کے ساتھ چیلنج سے نمٹنے کی کوشش کی ہے،‘‘ وزیراعظم نے کہا کہ اگرچہ حکومت کے کفایت شعاری کے اقدام سے غریبوں پر مہنگائی کا بوجھ کم نہیں ہوگا لیکن اس سے ان کی پریشانی میں کمی آئے گی اور انہیں یہ احساس ملے گا کہ حکومت، سیاست دان اور بیوروکریسی دل کی گہرائیوں سے ان کے ساتھ ہے۔

Leave feedback about this

  • Rating