نوے دن میں انتخابات کرانا آئینی ذمہ داری ہے ،آئین سے بڑی کوئی چیز نہیں:لاہور ہائیکورٹ
عدالت نے جو بھی کرنا ہے وہ آج فیصلہ کر دے، 3دن کے بعد 90 دن کے الیکشن کا وقت متاثر ہوگا۔فواد چودھری
لاہور ہائیکورٹ:پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت 13 فروری تک ملتوی کرنے کی استدعا مسترد
لاہور (صحافی ۔ پی کے نیوز) لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کے لئے دائر درخواستوں پر گورنر پنجاب اور الیکشن کمیشن کو آج (10فروری بروز جمعہ) تفصیلی جواب جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئین سے بڑی کوئی چیز نہیں ،ہم نے وہ آرڈر کرنا ہے جس پر ہم عملدرآمد کراسکیں، الیکشن 90 روز میں ہونے ہیں یہ لکھی ہوئی بات ہے، الیکشن کرانے کی تاریخ دینے کا طریقہ کار کیا ہوگا وہ ہم دیکھ لیتے ہیں،دیکھنا یہ ہے کہ اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل نہیں کی تو کیا الیکشن کی تاریخ گورنر نے دینی ہے،ہم نے ایسا حکم نہیں کرنا جس پر عملدرآمد نہ ہوسکے، معاملہ توہین عدالت پر چلا جاتا ہے جو اچھی روایت نہیں ، وکیل گورنر پنجاب نے جواب جمع کرواتے ہوئے کہا کہ اگر وزیراعلی کی نام نہاد ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل نہیں کی تو الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری نہیں ہے، گورنر نے الیکشن کمیشن کے اختیار میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی،وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ انتخابی شیڈول کے اجراء کے لئے گورنر پنجاب کو خط لکھا ہے جس میں 9اور 10اپریل کی تاریخ مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ،الیکشن کمیشن کے وکیل نے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملہ بھی عدالت کے سامنے رکھ دیا جبکہ وفاقی حکومت نے معاملے پر لارجر بینچ بنانے کی استدعا کر دی ۔گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے الیکشن کی تاریخ دینے سے متعلق متفرق درخواستوں کی سماعت عدالت عالیہ میں جسٹس جواد حسن نے کی۔پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر ، سینئر رہنما فواد چوہدری ، میاں اسلم اقبال ، سبطین خان جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا مشہود احمد سمیت دیگر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے ۔ تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دی جبکہ تحریک انصاف کے کچھ دستاویزات کو متفرق درخواست کے ذریعے ریکارڈ کا حصہ بنانے کی اجازت دے دی۔گورنر پنجاب کے وکیل نے شہری منیر احمد کی درخواست پر تحریری جواب جمع کرواتے ہوئے جب گورنر صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرے اس وقت الیکشن کی تاریخ دینا اس کی آئینی ذمہ داری ہے، گورنر آئین اور قانون کے مطابق فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔اگر گورنر نے وزیراعلی کی نام نہاد ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل نہیں کی تو الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری نہیں ہے، گورنر نے الیکشن کمیشن کے اختیار میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ساتھ ہی گورنر کی جانب سے گورنر نے مذکورہ درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے۔درخواست گزرا شوشل ایکٹوسٹ ہے ۔ وکیل نے جواب میں مزید کہا کہ صاف شفاف الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ، درخواست گزار نے اعتراض اٹھایا کہ گورنر نے آئین کے مطابق کام نہیں کیا ،درخواست گزار نے گورنر کو عہدے سے ہٹانے کی استدعا کی ،گورنر کو وزیراعظم کی سفارش پر صدر پاکستان تعینات کرتے ہیں۔پرویز الٰہی متعدد بار اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا بیان دے چکے تھے ،پرویز الٰہی نے سیاسی دبائو کے باعث اسمبلی تحلیل کی ، گورنر آئین کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔سماعت کے دوران جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے وہ حکم جاری کرنا ہے جس پر عمل درآمد بھی ہوسکے ،اس کیس میں وقت ہی سب سے بڑی چیز ہے ، آئین آپ کے ساتھ ہے ۔پشاور ہائیکورٹ میں بھی معاملہ زیر التوا ہے، ہم نے ایسا حکم نہیں کرنا جس پر عملدرآمد نہ ہوسکے۔معاملہ توہین عدالت پر چلا جاتا ہے جو اچھی روایت نہیں ہے،آئین سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔پنجاب اسمبلی کو گورنر نے تحلیل نہیں کیا، اب معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں ہے۔ الیکشن 90روز میں ہونے ہیں یہ لکھی ہوئی بات ہے، الیکشن کرانے کی تاریخ دینے کا طریقہ کار کیا ہوگا وہ ہم دیکھ لیتے ہیں۔مجھے مطمئن کریں کہ کیا یہ معاملہ لارجر بینچ کو بھیجا جائے یا نہ بھیجا جائے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل سے پوچھ لیں کہ وہ کب کی تاریخ دے رہے ہیں۔تاہم الیکشن کمیشن کے وکیل شہزاد مظہر نے کیس کی تیاری کے لیے مزید وقت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کل ہی یہ کیس دیا گیا ہے اس لیے کیس کی تیاری کے لیے کچھ وقت دے دیا جائے۔البتہ وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کام صرف الیکشن کرانا ہے ، کا تاریخ دینا نہیں ۔آئین کے تحت الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کا کام ہے ۔ جسٹس جواد حسن نے کہا کہ گزشتہ عدالتی حکم پر بھی ہدایات دیں تھیں۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں نے تو آپکے عدالتی حکم بھی نہیں پڑھے ۔جسٹس جواد حسن نے کہا کہ ہم نے وہ بات کرنی ہے جو آئین کہتا ہے، میں نے آئین سے باہر نہیں جانا، ہمیں صرف یہ بتا دیں کہ الیکشن کمیشن کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب کے لئے وقت دینے کا اصرار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے تیاری کا موقعہ دیں۔جسٹس جواد حسن نے کہا کہ عدالت کو پتہ ہے آپ قابل وکیل ہیں تیاری کے بغیر دلائل دے سکتے ہیں۔تاہم وکیل نے کہا کہ میں نالائق ہوں اور آپ سے سیکھ رہا ہوں مجھے تیاری کا وقت ملنا چاہیے ۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 90دن میں انتخابات کرانا آئینی ذمہ داری ہے۔عدالت نے بتانا ہے کہ آئین اور عدالتی فیصلے موجود ہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 57میں سب کچھ واضع ہے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ مقرر کرنا گورنر کا اختیار ہے۔الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول کے اجرا کیلئے گورنر پنجاب کو خط لکھا، الیکشن کمیشن نے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کردی۔وکیل الیکشن کمیشن شہزادہ مظہر نے گورنر کو لکھے خط کے مندرجات پڑھ کرسنائے۔وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ گورنر پنجاب کو 9اور دس اپریل کی تاریخ مقرر کرنے کی تجویز دی۔الیکشن کمیشن نے لکھے خط میں واضع کیاکہ انتخابات نوے دن میں ہونا آئینی تقاضا ہے۔وکیل تحریک انصاف بیرسٹر علی ظفر نے مشورہ دیا کہ اگر گورنر الیکشن کی تاریخ نہیں دے رہے تو پھر صدر پاکستان الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں ،صدر پاکستان نے الیکشن کرانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھ دیا ہے۔ جسٹس جواد حسن نے کہا کہ اسد عمر نے الیکشن کمیشن کے خط پر اعتماد کا اظہار کیا، پہلی مرتبہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی تعریف کی۔جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے وہ فیصلہ کرنا ہے جو آئین اور قانون کے مطابق ہے، الحمدللہ میرے سارے فیصلوں پر عملدرآمد ہوجاتا ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جناب عملدرآمد کا کہہ رہے ہیں لیکن بہت سے مسائل ہیں۔جسٹس جواد حسن نے کہا کہ بتائیں کیا مسائل ہیں، میں نے گورنر کو الیکشن کا نہیں کہنا، اسی لیے تو الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے، انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے ۔ وکیل نے کہا کہ الیکشن کرانے کے حوالے سے بہت سی رکاوٹیں ہیں ، ہمیں تفصیلی جواب جمع کرانے دیں۔وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ یہاں کیس الیکشن کی تاریخ دینے کا ہے ۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ اگر تاریخ دے دی جاتی ہے اور الیکشن کمیشن کسی وجوہات کی بنا پر الیکشن نہ کرا سکا تو پھر کیا ہوگا ،سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کیسے ہوگا ،اگر الیکشن کی تاریخ دے دی جاتی ہے اور اربوں روپے خرچ ہونے کے باجود الیکشن نہ ہوئے تو زمہ دار کون ہوگا ۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کرانے کے لئے فنڈز کی ضرورت ہے ہمیں فنڈز کون دے گا ۔الیکشن کمیشن وکیل نے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملہ عدالت کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ہمیں الیکشن کے لئے فنڈز ایشو نہیں کیے جا رہے۔ ہم نے انتخابات کرانے کے لئے فنڈز مانگے ہیں اگر فنڈز نہ ملیں تو انتخابات کیسے ممکن ہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ انتہائی تشویشناک بات کر رہے ہیں۔وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے جواب سے تو لگ رہا ہے کہ وہ انتخابات کرانا ہی نہیں چاہتے۔وفاقی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی کمیشن نے درخواست پر لارجر بینچ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ میری استدعا ہے کہ عدالت درخواست پر لارجر بینچ بنانے کی سفارش کردے ۔وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ ان کی نیت صاف نظر آرہی ہے یہ الیکشن نہیں کروانا چاہتے۔آئین کہتا ہے کہ تمام اداروں نے الیکشن کمیشن کو اسسٹ کرنا ہے۔ جسٹس جواد حسن نے کہا کہ آپ سب کے تحریری جواب آنے دیں،دیکھ لیتے ہیں، میں شام تک بیٹھا ہوں، میں نے پہلے بھی رات گئے تک کیسسز کی سماعت کی ہے، میں نے ڈویژنل بینچ بھی آج منع کردیا ہے، میں کل (جمعہ ) بھی بیٹھوں گا۔دوران سماعت تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ یہ ایسا کرتے ہیں کہ آئین کے جو حصے اپنے حق میں ہیں وہ پڑھتے ہیں ،آئین کے جو حصے انکے حق میں نہیں وہ نہیں پڑھتے۔ جسٹس جواد حسن نے کہا کہ عدالت دیکھے گی آپ نے پازیٹو رہنا ہے۔عدالت نے گورنر پنجاب اور الیکشن کمیشن کو تفصیلی جواب جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کب جمع کروائیں گے ۔ تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر اور فواد چوہدری نے کہا کہ اگلے 3دن میں تاریخ کا اعلان نہ ہوا تو آئینی بحران پیدا ہو جائے گا، اگر 3دن گزر گئے تو آئنی مسائل پیدا ہوں گے، قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہے،اس کا احساس دوسری طرف والوں کو بھی کرنا ہے۔جسٹس جواد حسن نے کہا کہ میرے لیے مسئلہ نہیں دو منٹ لگیں گے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ عدالت نے جو بھی کرنا ہے وہ آج ( جمعہ ) فیصلہ کر دے، 3دن کے بعد 90 دن کے الیکشن کا وقت متاثر ہوگا۔فواد چودھری نے کہا کہ انکا مسئلہ ہے کہ یہ الیکشن کرانا ہی نہیں چاہتے۔ جس پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا مشہود احمد نے کہا کہ ہم الیکشن کرانا چاہتے ہیں مگر آپکی مرضی کے نہیں ہونگے ۔ فواد چوہدری نے کہا کہ ہماری مرضی کے نہ کرائیں آئین کی مرضی کروادیں ۔عدالت نے الیکشن کمیشن اور گورنر کی جانب سے سماعت 13 فروری تک ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کردی ۔ عدالت نے الیکشن کمیشن اور گورنر کو آج ( جمعہ ) جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ۔

Leave feedback about this