وفاقی ترقیاتی بجٹ میں بڑی کٹوتی کی تیاری
بجٹ میں کٹوتی کی حکمت عملی سے مختلف وزارتوں کے کئی منصوبے متاثر ہوسکتے ہیں
ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز جاری کرنے میں سست روی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے
لاہور (صحافی ۔ پی کے نیوز)پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کے سلسلے میں 727 ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی حکمت عملی تیار کرلی گئی حکومتی ذرائع کے مطابق ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز جاری کرنے میں سست روی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے. ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ میں کٹوتی کی حکمت عملی سے مختلف وزارتوں کے کئی منصوبے متاثر ہوسکتے ہیں جن میں صحت، تعلیم، ہاؤسنگ، خوراک، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق منصوبے شامل ہیں اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں ساڑھے 3 سو ارب تک کمی ہو سکتی ہے. ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حکمت عملی سے ترقیاتی بجٹ میں 350 ارب تک کمی ہو سکتی ہے حکمت عملی کے تحت پہلے 6 ماہ میں صرف 151 ارب روپے خرچ کیے گئے واضح رہے کہ اس سے قبل آئی ایم ایف بجلی اور گیس کے نرخ پچاس فیصد بڑھانے کامطالبہ کر چکا ہے آئی ایم ایف کے مطالبات کے مطابق پاکستان کو تیس جون تک زرمبادلہ کے ذخائر1600ارب ڈالر تک لانا ہونگے جبکہ درآمدات پر پابندیاں فوری ختم کرنا ہونگی،ایل سیز کھولنے کیلئے 4ارب ڈالر کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی،اخراجات میں 600ارب روپے کمی کابھی مطالبہ کیا گیا ہے. دوسری جانب انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو پاکستان کے ساتھ مل کر سماجی تحفظ کو مضبوط بنانے اور معاشی حقوق کو فروغ دے کر کمزور ترین افراد کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنا چاہیے ہیومن رائٹس واچ کی یہ تجویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان پاکستان کی معیشت کو بچانے کے منصوبے پر تبادلہ خیال جاری ہے. ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ آئی ایم ایف کو حکومت کے ساتھ مل کر سماجی تحفظ کے نظام کو وسیع کرنا چاہیے اور ایسے اصلاحاتی اقدامات سے پرہیز کرنا چاہیے جن سے معاشرے کے کمزور ترین طبقے کو مزید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوہیومن رائٹس واچ نے ایک بیان میں کہا کہ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے جو لاکھوں لوگوں کی صحت، غذائی ضروریات اور مناسب معیار زندگی کے حقوق کو خطرے میں ڈال رہا ہے. آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات 9 فروری تک جاری رہیں گے، ان کا مقصد آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی قسط کے اجرا کے لیے نواں جائزہ مکمل کرنا ہے ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اس قسط کے اجرا سے زرمبادلہ کے تیزی سے گرتے ذخائر میں بہتری آئے گی اور کثیر الجہتی اور دو طرفہ عطیہ دہندگان سمیت دیگر فنڈنگ تک رسائی کا سلسلہ بحال ہوگا. ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیومن رائٹس واچ پیٹریشیا گوسمین نے کہا کہ لاکھوں پاکستانیوں کو غربت میں دھکیل دیا گیا ہے اور وہ اپنے بنیادی سماجی اور معاشی حقوق سے محروم ہیں انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف اور پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بحران کا ایسا حل تلاش کریں جو کم آمدنی والے لوگوں کو ترجیح اور تحفظ فراہم کرے. پاکستان میں ”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام“ کے نام سے سماجی تحفظ کے منصوبے سے انتہائی غربت میں رہنے والی خواتین مستفید ہوتی ہیں، اگرچہ یہ پروگرام لاکھوں گھرانوں کی مدد کرنے والا ایک اہم اقدام ہے لیکن ایک بڑی آبادی کو آئی ایم ایف کے لازمی اقدامات کے نتیجے میں ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافے کے مزید بوجھ سے بچانے کے لیے اسے واضح طور پر وسعت دینے کی ضرورت ہے. آئی ایم ایف نے اس قرض کے اجرا کے لیے جو شرائط رکھی ہیں وہ یا تو سماجی اور معاشی مشکلات مزید بڑھا سکتی ہیں یا بحران کی بنیادی وجوہات کو حل کرتے ہوئے پاکستانیوں کو ریلیف فراہم کر سکتی ہیں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرضہ حاصل کرنے اور فوری معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے لازمی شرائط کے طور پر تجویز کردہ متعدد ایڈجسٹمنٹس کا کم آمدنی والے افراد پر براہ راست اور بالواسطہ منفی اثر پڑے گا. غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق پنجاب اور کے پی کے سمیت حکومت نے اخراجات میں کمی کے لیے قومی صحت پروگرام کو بھی محدودکردیا ہے جس کے تحت طبی ایمرجنسی کی صورت میں ہر شہری کو دس لاکھ روپے تک کی ہیلتھ انشورنس کی سہولت دستیاب تھی۔

Leave feedback about this