الیکشن کمیشن کو عمران خان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیاگیا

اس شخص کے کیس کا فیصلہ کیوں کریں جو خود پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا،سپریم کورٹ
چاہتے ہیں نیب ترامیم کا کیس جلد مکمل ہو،نیب ترامیم کے فیصلے سے ملک میں قانون پر عملدرآمد متاثر ہو رہا ہے،چیف جسٹس
پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے شخص کا کیس کیوں سن رہے ہیں ؟،ایک شخص کے فیصلوں سے پورا سسٹم منجمد ہو رہا ہے،جسٹس منصور علی شاہ
اسلام آباد(صحافی ۔ پی کے نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ چاہتے ہیں کہ نیب ترامیم کا کیس جلد مکمل ہو،نیب ترامیم کے فیصلے سے ملک میں قانون پر عملدرآمد متاثر ہو رہا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ایسے شخص کا کیس کیوں سن رہی ہے جو پارلیمنٹ کے باہر بیٹھا ہے،ایک شخص کے فیصلوں سے پورا سسٹم منجمد ہو رہا ہے،منگل کے روزعمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار نیب کے کنڈکٹ کے خلاف درخواست لے کر آئیں عدالت ایکشن لے گی،ہمیں آزاد تفتیشی اور پراسیکیوٹرز چاہئیں،تفتیشی افسروں اور پراسیکیوٹرز کی نالائقی کی وجہ سے قانون کا نظام خراب ہوا،ملک کے قانونی نظام کو بہتر بنانا چاہتے ہیں،عمران خان کی درخواست میں ٹھوس حقائق نہیں تھے، آئے روز ٹھوس حقائق سامنے آ رہے کہ ترامیم کے بعد مقدمات واپس ہورہے ہیں، اب تک 386 کیسز واپس ہوچکے ہیں، اخبارات میں خبریں چھپی ہیں کہ تحریک انصاف پارلیمنٹ واپس جا رہی ہے،اگر پی ٹی آئی پارلیمنٹ واپس آتی ہے تو کیا حکومت ان کے ساتھ مل بیٹھے گی؟کیوں نہ ہم نیب ترامیم کا معاملہ واپس پارلیمنٹ بھیج دیں؟دوران سماعت وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ بغیر ہدایات لیے عدالت میں کوئی بات نہیں کر سکتا،پارلیمانی نظام میں تمام طریقہ کار واضح اور طے شدہ ہے،پی ٹی آئی چاہے تو پارلیمنٹ جا کر نیب قانون کا ترمیمی بل پیش کر سکتی ہے،سیاست کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور نہیں ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد قومی حکومت کا تصور بھی موجود ہے، ہو سکتا ہے پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں آ کر کہے کہ جو نیب ترامیم ان کے دور میں ہوئیں وہ درست ہیں،امریکی صدر کو اختیار ہے کہ کسی بھی مجرم کو عام معافی دے دے،آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں ترامیم کا ماضی سے اطلاق نہ ہوسکے، کبھی کوئی قانون اس وجہ سے کالعدم نہیں ہوا کہ ارکان پارلیمنٹ کی نیت اچھی نہیں تھی،عدالت ارکان اسمبلی کی نیت کا تعین نہیں کر سکتی، مفادات کا ٹکراؤ بھی قانون سازی کالعدم کرنے کی وجہ نہیں ہو سکتا،بجٹ منظور کرنے والے کئی ارکان اسمبلی صنعتکار اور کاروباری بھی ہوتے ہیں، پی ٹی آئی کے رہنماوں کو نیب ترامیم سے ریلیف ملا لیکن اسے کسی نے چیلنج نہیں کیا، سابق وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور ایک ادارے کے چیف ایگزیکٹو پر نیب کیس بنایا گیا، کئی سال جیل میں رکھنے کے بعد تفتیش میں کچھ نا ملنے پر وہ بری ہوئے، نیب ماضی میں سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوتا رہا۔جسٹس اعجازالاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ قانون سازی اکثریتی رائے کے بجائے اتفاق رائے سے ہونی چاہیے،نیب ترامیم کے معاملے میں قومی اور ملکی مفاد کو سامنے رکھا جانا چاہیے،امید ہے حکومت اور پی ٹی آئی اتفاق رائے سے قانون سازی کریں گی،کئی ارکان پارلیمان کا کرپشن کے سنگین الزامات پر ٹرائل چل رہا تھا، کیا کوئی ایسی مثال ہے کہ ارکان اسمبلی نے اپنے کیسز ختم کرانے کیلئے قانون سازی کی ہو؟انہوں نے ایک موقع پر پوچھا کہ کیا نیب ترامیم ایمنسٹی سکیم ہیں یا عام معافی؟کیا نیب ترامیم کا ماضی سے اطلاق کرنا اپنے الزامات صاف کرنا نہیں ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پارلیمنٹ میں جا کر نیب ترامیمی بل پیش کر دیں، پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں کیوں نہیں جا رہی؟کیا ارکان اسمبلی کے کنڈکٹ پر عدالت اپنی حدود کو پھیلا سکتی ہے؟ سپریم کورٹ ایسے شخص کا کیس کیوں سن رہی ہے جو پارلیمنٹ سے باہر ہے؟ عمران خان پارلیمنٹ کی بحث کا حصہ بننا چاہتے ہیں نا ہی اس کو فیصلوں کو مانتے ہیں،عدالت کیوں اس شخص کے کیس کا فیصلہ کرے جو خود پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا؟ ایک شخص کے فیصلوں کی وجہ سے پورا سسٹم منجمند ہو رہا ہے،کیا واپس ہونے والے کیسز کسی اور فورم پر نہیں جا سکتے؟خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہپارلیمان بھی آئینی ادارہ ہے اسے بھی سپورٹ کرنا چاہیے، پی ٹی آئی ایک سیاسی فیصلے کے تحت اسمبلی سے باہر آئی، ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا،وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے فاضل ججز کے استفسار پر بتایا کہ دیگر فورمز موجود ہیں جہاں کیسز چل سکتے ہیں،جی آئی ڈی سی کیس میں عدالت نے قرار دیا کہ حاصل رقم صرف گیس منصوبوں پر خرچ ہو،جی آئی ڈی سی سے حاصل رقم قومی خزانے میں جا کر غائب ہوگئی، نیب کو رضاکارانہ واپس کی گئی رقم بھی قومی خزانے میں نہیں آئی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بدقسمتی ہے کہ عوام کا پیسہ کس کس طرح غائب کیا گیا،پی ٹی وی کے مطابق ستر کی دہائی میں پاکستان نے چائنہ کو قرض دیا تھا،پی آئی اے کبھی دنیا کی بہترین ایئرلائن ہوا کرتی تھی،اب سب لوگ مفاد پرست ہوچکے ہیں،عدالت دوسرے اداروں کا کام کرنے کے بجائے انہیں فعال کرنا چاہتی ہے،آئین پر عملدرآمد کیلئے عدالت ہر ادارے پر نظر رکھ سکتی ہے،عدالت نے ہمیشہ الیکشن کمیشن کو مضبوط کیا ہے،آڈیٹر جنرل کو بھی مضبوط ہونا چاہیے تاکہ حکومتی کام میں شفافیت آ سکے،عدالت عظمیٰ نے بعد ازاں کیس کی سماعت ایک دن کے لئے ملتوی کر دی ۔#

Leave feedback about this

  • Rating