پنجاب اسمبلی میں پھر ہنگامہ:وزیر اعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کیلئے ایک دن مل گیا

  اسلام آباد،لاہور ( صحافی ۔ پی کے نیوز ) پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ، پرویز الہٰی کی فتح۔ پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، انہوں نے 186ووٹ حاصل کیے، وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر برقرار رہیں گے۔انہوں نے آج عمران خان سے ملاقات کے بعد اسمبلی توڑنے کی سمری پر دستخط بھی کر دئیے ہیں

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کل پرویز الہٰی پر اعتماد کے ووٹ پر رائے شماری کیلئے پنجاب اسمبلی میں راتوں رات کارروائی شروع کی۔

پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں کھانے کا وقفہ کیا گیا  جس کے بعد 11 جنوری کا اجلاس ختم کر کے اجلاس آج 12 بج کر 5 منٹ تک ملتوی کیا گیا تھا، تاہم کچھ دیر وقفے کے بعد اجلاس  دوبارہ  شروع ہوا۔

اجلاس دوبارہ شروع ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی پر اعتماد کے ووٹ کیلئے قرارداد پیش کی گئی ،راجہ بشارت اور میاں اسلم اقبال نے اعتماد کے ووٹ کی قرارداد پیش کی جس کے بعد ووٹنگ کا عمل جاری رہا، ووٹنگ کی گنتی کے مطابق پرویز الٰہی نے 186ووٹ کا گولڈن فیگر حاصل کرلیا۔

بعد ازاں پنجاب اسمبلی کا اجلاس 23 جنوری دوپہر دو بجے تک کے لئے ملتوی کردیا گیا، اسپیکر اعتماد کے ووٹ کے نتائج کی کاپی گورنر اور عدالت کو بھیجیں گے۔

اس سے قبل ایوان میں حاضری رجسٹرز کے مطابق پی ٹی آئی اور ق لیگ کے181 ارکان نے حاضری لگائی تھی۔

پنجاب اسمبلی میں گزشتہ رات پھر ہنگامہ کیا گیا :وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ مل گیا ، تفصیلات کے مطابق قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے عبوری ریلیف میں توسیع دی تھی ۔ سماعت آج بھی جاری ہے ۔ لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کو 24گھنٹے اکثریت کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے، درخواست گزار کے وکیل بتائیں اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کتنے دن کا وقت مناسب ہوگا، ہم وہ وقت مقرر کردیتے ہیں آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔لاہور ہائی کورٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے گورنر بلیغ الرحمٰن کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف چوہدری پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔وزیر اعلیٰ پنجاب کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی، دیگر ججز میں جسٹس چوہدری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس عاصم حفیظ اور جسٹس مزمل اختر شبیر شامل ہیں۔سماعت کے آغاز پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ معاملہ حل نہیں ہوا، گورنر کے وکیل نے کہا کہ یہ اعتماد کا ووٹ لیں گے تو معاملہ حل ہوگا، عدالت نے گورنر کے وکیل سے استفسار کیا کہ بتائیں کیا آفر ہے آپ کے پاس، جس پر گورنر کے وکیل نے جواب دیا کہ گزشتہ سماعت سے آج تک کافی وقت گزر گیا ہے لیکن اعتماد کا ووٹ نہیں لیا گیا، یہ ان کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے، عدالت اعتماد کا ووٹ لینے کا وقت مقرر فرما دے۔جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ درخواست گزار کو یہ لائن کراس کرنا پڑے گی، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ گورنر کے وکیل نے آفر دی ہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں، عدالت نے پرویز الہٰی کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں اعتماد کا ووٹ لینے کیلیے کتنے دن کا وقت آپ کے لیے مناسب ہوگا۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ہم وہ وقت مقرر کردیتے ہیں آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا، جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ 11 جنوری کا تو بہت وقت ہے، ابھی تک آپ کے لوگ آگئے ہوں گے، انہوں نے کہا کہ اگر آپ اگر قبول نہیں کرتے تو کل کو گورنر ایک اور نوٹی فکیشن جاری کردیں گے۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ہم اس درخواست پر میرٹ کے مطابق فیصلہ کر دیتے ہیں، ہم نے تو مناسب وقت دیا ہے۔اس دوران وزیر اعلیٰ پنجاب کے وکیل نے مشاورت کے لیے 30 منٹ کی مہلت کی استدعا کی۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ معاملے پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو رہا ہے، ہم اس درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کر دیں گے۔اس موقع پر پرویز الہٰی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے میرٹ پر دلائل کا آغاز کردیا، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ میں اس حوالے سے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں،گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کیلیے کہا اور اسپیکر کو خط لکھا، گورنر نے اپنے خط میں لکھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اعتماد کھو چکے ہیں، گورنر کے حکم کے جواب میں اسپیکر نے رولنگ دی اسپیکر کی رولنگ کو تاحال چیلنج نہیں کیا گیا۔عدالت نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا، کیا وہ اس عہدے پر قائم رہنے کے لیے اسمبلی کا اعتماد رکھتے ہیں، کیا ابھی تک اتنی بھی تسلی قائم نہیں ہوئی کہ اعتماد کا ووٹ لینا چاہیے کہ نہیں۔عدالت نے علی ظفر سے مکالمہ کیا کہ ابھی تک وہ مرحلہ بھی آیا ہے کہ نہیں، ہم پھر اس کیس کو میرٹ پر سنتے ہیں۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر گورنر دوبارہ کہہ دے کہ انہوں نے اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی ووٹ نہیں لیا۔عدالت نے استفسار کیا کہ جو بھی آپ کی گزارشات ہیں، ہم انہیں آج ہی سنیں گے، اگر آپ مناسب وقت کا تعین نہیں کرتے تو پھر ہم کیس کو میرٹ پر سنیں گے، گورنر پنجاب کے وکیل نے کہا کہ پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے 20 کے قریب دن مل چکے لیکن انہوں نے ووٹ نہیں لیا، ہم چاہتے ہیں کہ عدالت گورنر کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کی درخواست پر میرٹ پر فیصلہ کرے۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ تو کیا آپ اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر قبول نہیں کر رہے، آپ کا اعتراض تھا کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت نہیں دیا۔جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ وزیر اعلی کو 24گھنٹے اکثریت کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے ، ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اگر گورنر کے حکم پر عمل نہیں ہوتا تو پھر اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ کیا ہو گا اور رستہ کیسے رکے گا، معاملہ اب ایک مناسب وقت سے زیادہ آگے چلا گیا، آئین میں جو وقت کے بارے میں بتایا گیا ہے، اگر معاملے پر کوئی اتفاق نہیں ہو رہا تو ہم کیس کو میرٹ پر سنیں گے۔اس دوران عدالت کی جانب سے کیس کے میرٹ کی بنیاد پر سماعت شروع کر دی گئی، چوہدری پرویز الہیٰ کے وکیل نے گورنر پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر مسترد کر دی۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر گورنر کے پاس پی ٹی آئی کے اکثر ارکان آکر کہتے ہیں کہ انہیں وزیراعلیٰ پر اعتماد نہیں رہا تو پھر گورنر کو حق ہے کہ اعتماد کے ووٹ کا کہے، گورنر نے اعتماد کے ووٹ کیلیے مناسب وجوہات نہیں دیں، اگر اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے آئینی اور قانونی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے تو ہمیں اعتماد ک ووٹ لینے میں کوئی عار نہیں تھی، اگر چھانگا مانگا کی صورتحال بنانی ہے تو پھر اس پر ہمیں اعتراض ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے کیلیے پورا طریقہ کار موجود ہے، یہ ممکن نہیں ہے گورنر اچانک صبح اٹھ کر کہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں، 5 ماہ قبل وزیر اعلیٰ نے اسمبلی میں اپنی اکثریت دکھائی تھی، آئین میں اسمبلی توڑنے کا اختیار منتخب نمائندے یعنی وزیر اعلی کو دیا گیا ہے، وزیر اعلیٰ، گورنر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائز جاری کرے گا اور 48 گھنٹے میں اسمبلی تحلیل ہوجائے گی۔جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ موجودہ کیس میں گورنر نے 19دسمبر کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر گورنر کہتے کہ اعتماد کا ووٹ 10 دن میں لیں تو پھر کیا ہوتا ،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 19دسمبر کو پہلے تحریک عدم اعتماد آئی، اس کے 20 منٹ بعد گورنر نے بھی اپنا حکم جاری کردیا، اس ساری کہانی کا مقصد اسمبلی کی تحلیل روکنا تھا ،23 دسمبر کو عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی گئی۔عدالت نے کہاکہ عدالت میں ایک اور درخواست آئی ہے کہ چیف منسٹر کو کہا جائے کہ اسمبلی تحلیل نہ کریں، ہم اس درخواست کو موجودہ معاملے کے بعد سنیں گے، اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا حکم اگلی سماعت تک قائم رہے گا۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے عبوری ریلیف میں کل تک توسیع کرتے ہوئے مزید سماعت آج (جمعرات) کی صبح 9 بجے تک ملتوی کر دی، علاوہ ازیں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں پنجاب کی سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ہے اور حکمران اتحاد نے تحریک انصاف سے کہا ہے کہ وہ اداروں پر الزام تراشی چھوڑ کر پرویز الٰہی کیلیے اعتماد کے ووٹ کیلیے اراکین پورے کرے۔ادھر پنجاب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی، احتجاج، ارکان نشستوں پر کھڑے ہو گئے، حکومتی ممبران بھی پیچھے نہ رہے، ایک دوسرے کے خلاف شدید نعرے بازی، خواتین ارکان بھی پیش پیش رہیں 

Leave feedback about this

  • Rating