وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو حاصل استثنیٰ افواج کوکیسے دیا جاسکتا ہے؟ ، سپریم کورٹ
دنیا کے کسی اور ملک میں افواج کو یہ استثنیٰ حاصل ہے جو پاکستان میں ہے؟سول سرونٹس بھی ملک کی خدمت پر مامور ہے، انہیں استثنیٰ کیوں نہیں ؟
کیا فوجی افسر کی کرپشن کے احتساب کیلئے 40 سال ریٹائرمنٹ کا انتظار کرنا ہو گا؟، نیب ترامیم کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس
اسلام آباد (صحافی ۔ پی کے نیوز)سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو قومی فیصلوں پراحتساب سے استثنیٰ حاصل ہے، سوال یہ ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو حاصل استثنیٰ افواج کوکیسے دیا جاسکتا ہے؟سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔درخواست پر سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نے افواج پاکستان کے نیب کی دسترس سے باہر ہونے کے سوالات پر دلائل میں کہا کہ فوج افسران کو نیب استثنیٰ درست ہے، فوجی افسران سے ریٹائرمنٹ کے بعد احتساب ہو سکتا ہے۔اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں افواج کو یہ استثنیٰ حاصل ہے جو پاکستان میں ہے؟سول سرونٹس بھی ملک کی خدمت پر معمور ہے، انہیں نیب قانون میں استثنی کیوں نہیں دیا گیا؟ کیا فوجی افسر کی کرپشن کے احتساب کیلئے 40 سال ریٹائرمنٹ کا انتظار کرنا ہو گا؟انہوں نے استفسار کیا کہ آرمی افسران اگر دوران سروس کسی وفاقی یا صوبائی ادارے میں تعینات ہو تو کیا اس کا احتساب ہو سکتا ہے؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آرمی افسران پر آرمی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، نیب قانون نہیں، آرمی افسران کو نیشنل سکیورٹی کے تحت دوران سروس نیب قانون سے تحفظ دیا گیا ہے، آرمی افسران کمیشن حاصل کرنے کے بعد صرف 18 سال سروس میں رہتے ہیں، افواج پاکستان کا اندرونی کنٹرول، منیجمنٹ اور احتساب کا طریقہ کار ہے اور ان کی سزائیں بھی عام سزاؤں سے سخت ہوتی ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ نیب قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ آرمی افسران کا احتساب آرمی ایکٹ کے تحت ہو گا، آرمی ایکٹ نیب کے دائرہ کار کو محدود نہیں کر سکتا، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو قومی فیصلوں پر احتساب سے استثنیٰ حاصل ہے، سوال یہ ہے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو حاصل استثنیٰ افواج کو کیسے دی جا سکتی ہے؟خواجہ حارث نے کہاکہ آرمی افسران سروس میں جو بھی کریں اس کا احتساب ریٹائرمنٹ کے بعد ہو سکتا ہے، عدالت مانے یا نا مانے آرمی افسران کو تحفظ دینا ہی پارلیمنٹ کی منطق ہے۔

Leave feedback about this